Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Zakah on Horses)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2467.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مسلمان پر اس کے (خدمت والے) غلام اور (سواری والے) گھوڑے میں کوئی زکاۃ نہیں۔“
تشریح:
یہ حدیث اور دوسری احادیث صراحتاً گھوڑوں میں زکاۃ کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا صحیح یہی ہے کہ غلام اور گھوڑا اگر خدمت کے لیے ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں۔ تبھی تو ان میں کوئی نصاب بھی مقرر نہیں، نیز جو چیز ذاتی ضروریات کے ضمن میں آتی ہو، اس میں زکاۃ نہ ہونا مسلمہ اصول ہے، مگر احناف نے عمومات یا ضعیف روایت سے استدلال کرتے ہوئے ان صریح احادیث کی نفی کی ہے اور گھوڑے میں (خواہ وہ ایک ہی ہو) زکاۃ ثابت کی ہے جو کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں، البتہ تجارت کے گھوڑے اور غلاموں میں قطعاً زکاۃ ہے کیونکہ وہ تجارتی سامان میں شامل ہیں۔ اسی طرح غلام میں صدقۃ الفطر کا ذکر بھی صحیح روایت میں ہے، البتہ گھوڑے میں زکاۃ کے علاوہ دوسرے حقوق ہو سکتے ہیں، مثلا: جہاد میں استعمال کرنا، سواری کے لیے عارضی طور پر کسی کو دینا اور جفتی کے لیے چھوڑ دینا وغیرہ۔ دوسری روایات کو انھی حقوق پر محمول کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه
الترمذي وابن الجارود) .
إسناده: حدثنا محمد بن المثنى ومحمد بن يحيى بن فَياضِ قالا: ثنا
عبد الوهاب: ثنا عبيد الله عن رجل عن مكحول عن عِرَاكِ بن مالك عن أبي هريرة.
قلت: رجال إسناده ثقات رجال مسلم؛ غير الرجل الذي لم يُسَمَّ، وقد سَماهُ
سفيان بن عيينة فقال: حدثنا أيوب بن موسى عن مكحول عن سليمان بن يسار
عن عراك بن مالك... به؛ إلا أنه لم يذكر الاستثناء.
أخرجه مسلم (3/67) ، وابن الجارود (355) وغيرهما، وفيه بيان أن مكحولاً
لم يسمعه من عراك. وبه جزم البيهقي (4/117) ، وقال:
" إنما رواه عن سليمان بن يسار عن عراك ... "، ثم ساقه عن سفيان... به.
وللحديث طريق أخرى عن عراك بن مالك... به؛ وفيه الزيادة: رواه مسلم
وغيره، وهو مخرج في "الأحاديث الصحيحة " (2189) ، و "الضعيفة " (4014) .
وأما الرواية الأخرى؛ فإسنادها هكذا: حدثنا عبد الله بن مسلمة: ثنا مالك
عن عبد الله بن دينار عن سليمان بن يسار عن عراك بن مالك عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه، وصححه
الترمذي وابن الجارود، وهو مخرج في المصدر الأخير منهما.
الصحيحة ( 2189 ) ، الضعيفة ( 4014 ) صحيح أبي داود (1421)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2468
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2466
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2469
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مسلمان پر اس کے (خدمت والے) غلام اور (سواری والے) گھوڑے میں کوئی زکاۃ نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اور دوسری احادیث صراحتاً گھوڑوں میں زکاۃ کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا صحیح یہی ہے کہ غلام اور گھوڑا اگر خدمت کے لیے ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں۔ تبھی تو ان میں کوئی نصاب بھی مقرر نہیں، نیز جو چیز ذاتی ضروریات کے ضمن میں آتی ہو، اس میں زکاۃ نہ ہونا مسلمہ اصول ہے، مگر احناف نے عمومات یا ضعیف روایت سے استدلال کرتے ہوئے ان صریح احادیث کی نفی کی ہے اور گھوڑے میں (خواہ وہ ایک ہی ہو) زکاۃ ثابت کی ہے جو کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں، البتہ تجارت کے گھوڑے اور غلاموں میں قطعاً زکاۃ ہے کیونکہ وہ تجارتی سامان میں شامل ہیں۔ اسی طرح غلام میں صدقۃ الفطر کا ذکر بھی صحیح روایت میں ہے، البتہ گھوڑے میں زکاۃ کے علاوہ دوسرے حقوق ہو سکتے ہیں، مثلا: جہاد میں استعمال کرنا، سواری کے لیے عارضی طور پر کسی کو دینا اور جفتی کے لیے چھوڑ دینا وغیرہ۔ دوسری روایات کو انھی حقوق پر محمول کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The Muslim does not have to pay on his slave or his horse.” (Sahih)