Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Zakah On Jewelry)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2479.
حضرت عمرو بن شعیب کے جد امجد (حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ ) سے روایت ہے کہ علاقہ یمن کی ایک عورت اپنی بیٹی سمیت رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئی۔ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو بھاری کنگن تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تو ان کی زکاۃ دا کرتی ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل تجھے (یا تیری بیٹی کو) آگ کے دو کنگن پہنائے؟“ اس عورت نے وہ کنگن فوراً اتار دیے اور رسول اللہﷺ کی طرف پھینک دیے اور کہنے لگی: یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے لیے ہیں۔
تشریح:
(۱) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ عمرو بن شعیب کے دادا نہیں بلکہ پردادا ہیں۔ (۲) ”یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے ہیں۔“ یعنی یہ بیت المال کے ہیں، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دین اور مرضی کی راہ میں ہیں تاکہ صحیح مصرف میں صرف کر دیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کا ذکر دیناً اور تبرکاً ہے۔ آپ بیت المال کے والی تھے، اس لیے آپ کا ذکر کیا ورنہ زکاۃ اور صدقہ آپ نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے حرام کر رکھا تھا…ﷺ… (۳) کیا زیورات میں زکاۃ ہے؟ اس بارے میں علماء کے دو مشہور قول ہیں، بعض علماء کا کہنا ہے کہ زیورات میں زکاۃ نہیں اور بعض کا قول یہ ہے کہ زیورات میں زکاۃ واجب ہے دونوں اقوال میں سے دوسرا قول دلائل کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے اور اس کی تائید چند صحیح روایات سے بھی ہوتی ہے، لہٰذا درست موقف یہی ہے کہ وہ زیورات جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچیں ان کی زکاۃ ادا کی جائے گی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۲/ ۱۷۹-۱۸۱) سونے کا نصاب ۲۰ دینار ہے جیسا کہ مرفوع روایت میں ہے۔ اس دور میں ۲۰ دینار ۲۰۰ درہم کے برابر تھے۔ آج کل سونے چاندی کے بھاؤ میں یہ تناسب نہیں رہا۔ ۲۰ دینار کا وزن تقریباً ساڑھے سات تو لے بنتا ہے۔ اس کی قیمت چاندی کے نصاب سے بہت زیادہ ہے، اس لیے بعض محققین نے سونے میں بھی چاندی کے نصاب ہی کو معتبر سمجھا ہے، یعنی ۲۰۰ درہم یا ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر سونا ہو تو اس میں زکاۃ ہوگی، مگر یہ موقف مرجوح ہے۔ جمہور نے اسے قبول نہیں کیا۔ واللہ أعلم۔ البتہ ان کے برعکس عصر حاضر کے بعض علماء نے کرنسی کے نصاب میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے بجائے ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کو نصاف بنانے کی رائے ظاہر کی ہے۔ یہ رائے قابل غور ہو سکتی ہے لیکن اس سے زکاۃ کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا۔ زکاۃ کا مقصد تو غرباء ومساکین کی امداد اور جہاد اور مجاہدین کی ضروریات کا پورا کرنا ہے۔ سونے کے نصاب کو کرنسی کی زکاۃ کا نصاب مقرر کرنے سے لاکھوں اصحاب حیثیت زکاۃ سے مستثنیٰ قرار پا جائیں گے، جس کا نقصان دینی اداروں اور معاشرے کے ضرورت مندوں کو ہوگا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2480
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2478
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2481
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب کے جد امجد (حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ ) سے روایت ہے کہ علاقہ یمن کی ایک عورت اپنی بیٹی سمیت رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئی۔ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو بھاری کنگن تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تو ان کی زکاۃ دا کرتی ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل تجھے (یا تیری بیٹی کو) آگ کے دو کنگن پہنائے؟“ اس عورت نے وہ کنگن فوراً اتار دیے اور رسول اللہﷺ کی طرف پھینک دیے اور کہنے لگی: یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے لیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(۱) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ عمرو بن شعیب کے دادا نہیں بلکہ پردادا ہیں۔ (۲) ”یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے ہیں۔“ یعنی یہ بیت المال کے ہیں، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دین اور مرضی کی راہ میں ہیں تاکہ صحیح مصرف میں صرف کر دیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کا ذکر دیناً اور تبرکاً ہے۔ آپ بیت المال کے والی تھے، اس لیے آپ کا ذکر کیا ورنہ زکاۃ اور صدقہ آپ نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے حرام کر رکھا تھا…ﷺ… (۳) کیا زیورات میں زکاۃ ہے؟ اس بارے میں علماء کے دو مشہور قول ہیں، بعض علماء کا کہنا ہے کہ زیورات میں زکاۃ نہیں اور بعض کا قول یہ ہے کہ زیورات میں زکاۃ واجب ہے دونوں اقوال میں سے دوسرا قول دلائل کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے اور اس کی تائید چند صحیح روایات سے بھی ہوتی ہے، لہٰذا درست موقف یہی ہے کہ وہ زیورات جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچیں ان کی زکاۃ ادا کی جائے گی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۲/ ۱۷۹-۱۸۱) سونے کا نصاب ۲۰ دینار ہے جیسا کہ مرفوع روایت میں ہے۔ اس دور میں ۲۰ دینار ۲۰۰ درہم کے برابر تھے۔ آج کل سونے چاندی کے بھاؤ میں یہ تناسب نہیں رہا۔ ۲۰ دینار کا وزن تقریباً ساڑھے سات تو لے بنتا ہے۔ اس کی قیمت چاندی کے نصاب سے بہت زیادہ ہے، اس لیے بعض محققین نے سونے میں بھی چاندی کے نصاب ہی کو معتبر سمجھا ہے، یعنی ۲۰۰ درہم یا ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر سونا ہو تو اس میں زکاۃ ہوگی، مگر یہ موقف مرجوح ہے۔ جمہور نے اسے قبول نہیں کیا۔ واللہ أعلم۔ البتہ ان کے برعکس عصر حاضر کے بعض علماء نے کرنسی کے نصاب میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے بجائے ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کو نصاف بنانے کی رائے ظاہر کی ہے۔ یہ رائے قابل غور ہو سکتی ہے لیکن اس سے زکاۃ کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا۔ زکاۃ کا مقصد تو غرباء ومساکین کی امداد اور جہاد اور مجاہدین کی ضروریات کا پورا کرنا ہے۔ سونے کے نصاب کو کرنسی کی زکاۃ کا نصاب مقرر کرنے سے لاکھوں اصحاب حیثیت زکاۃ سے مستثنیٰ قرار پا جائیں گے، جس کا نقصان دینی اداروں اور معاشرے کے ضرورت مندوں کو ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ یمن کی رہنے والی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بیٹی تھی جس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس کی زکاۃ دیتی ہو؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا تجھے اچھا لگے گا کہ اللہ عزوجل ان کے بدلے قیامت کے دن تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے؟“ یہ سن کر اس عورت نے دونوں کنگن (بچی کے ہاتھ سے) نکال لیے۔ اور انہیں رسول اللہ ﷺ کے آگے ڈال دیا، اور کہا: یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Amr bin Shuaib, from his father, from his grandfather, that a woman from among the people of Yemen came to the Messenger of Allah (ﷺ) with a daughter of hers, and on the daughter’s hand were two thick bangles of gold. He said: “Do you pay Zakah on these?” She said: “No.” He said: “Would it please you if Allah were to put two bangles of fire on you on the Day of Resurrection?” So she took them off and gave them to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: “They are for Allah and His Messenger.” (Hasan)