Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Zakah On Jewelry)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2480.
حضرت عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی۔ اس کے ساتھ اس کی ایک بیٹی بھی تھی جس کے ہاتھ میں دو کنگن تھے۔ آگے پوری روایت مذکورہ بالا کی مانند۔ یہ روایت مرسل، یعنی منقطع ہے (کیونکہ عمرو بن شعیب واقعہ کے عینی شاہد نہیں)۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی) ؓ بیان فرماتے ہیں: (سابقہ حدیث: ۲۴۸۱ کا راوی) خالد (اس حدیث: ۲۴۸۲ کے راوی) معتمر سے زیادہ ثقہ ہے۔
تشریح:
خالد کی روایت متصل ہے جبکہ معتمر کی روایت منقطع ہے کیونکہ عمرو بن شعیب صحابی ہیں نہ تابعی بلکہ نچلے طبقے کے راوی ہیں، تاہم یہ روایت بھی سابقہ حدیث کی وجہ سے حسن درجے کی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2481
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2479
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2482
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی۔ اس کے ساتھ اس کی ایک بیٹی بھی تھی جس کے ہاتھ میں دو کنگن تھے۔ آگے پوری روایت مذکورہ بالا کی مانند۔ یہ روایت مرسل، یعنی منقطع ہے (کیونکہ عمرو بن شعیب واقعہ کے عینی شاہد نہیں)۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی) ؓ بیان فرماتے ہیں: (سابقہ حدیث: ۲۴۸۱ کا راوی) خالد (اس حدیث: ۲۴۸۲ کے راوی) معتمر سے زیادہ ثقہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
خالد کی روایت متصل ہے جبکہ معتمر کی روایت منقطع ہے کیونکہ عمرو بن شعیب صحابی ہیں نہ تابعی بلکہ نچلے طبقے کے راوی ہیں، تاہم یہ روایت بھی سابقہ حدیث کی وجہ سے حسن درجے کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی اور اس کی بچی کے ہاتھ میں دو کنگن تھے، آگے اسی طرح کی روایت ہے جیسے اوپر گزری ہے۔ اور یہ روایت مرسل ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: خالد معتمر سے زیادہ ثقہ راوی ہیں (اس لیے ان کی متصل روایت معتمر کی مرسل سے زیادہ صحیح ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Amr bin Shuaib said: “A woman came to the Messenger of Allah (ﷺ) with a daughter of hers, and on her daughter’s arm were two bangles” — a similar report, in Mursal form. (Hasan)