Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The One Who Withoholds zakah Due On His Wealath)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2482.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال عطا فرمائے، پھر وہ اس کی زکاۃ نہ دے تو قیامت کے دن اس کے مال کو اس کے سامنے گنجے سانپ کی صورت دی جائے گی جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے۔ وہ اس شخص کے منہ کے دونوں کناروں کو پکڑ لے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں۔ میں تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾ (آل عمران: ۱۸۰) ”جو لوگ اس مال میں بخل کرتے ہیں جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے عطا فرمایا ہے (وہ اس (بخل) کو اپنے لیے ہرگز بہتر نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے اور قیامت کے دن وہ مال ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔)“
تشریح:
اس قسم کا سانپ بہت زہریلا ہوتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا بچتا نہیں۔ ڈراؤنا بھی بہت ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: ۲۴۳۳، ۲۴۵۰۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2483
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2481
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2484
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال عطا فرمائے، پھر وہ اس کی زکاۃ نہ دے تو قیامت کے دن اس کے مال کو اس کے سامنے گنجے سانپ کی صورت دی جائے گی جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے۔ وہ اس شخص کے منہ کے دونوں کناروں کو پکڑ لے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں۔ میں تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾ (آل عمران: ۱۸۰) ”جو لوگ اس مال میں بخل کرتے ہیں جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے عطا فرمایا ہے (وہ اس (بخل) کو اپنے لیے ہرگز بہتر نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے اور قیامت کے دن وہ مال ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔)“
حدیث حاشیہ:
اس قسم کا سانپ بہت زہریلا ہوتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا بچتا نہیں۔ ڈراؤنا بھی بہت ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: ۲۴۳۳، ۲۴۵۰۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اس مال کی زکاۃ ادا نہ کرے، تو قیامت کے دن اس کا مال گنجا سانپ بن جائے گا، اس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ قیامت کے دن اس کے دونوں کلّے پکڑے گا، اور اس سے کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔“ پھر آپ نے آیت کریمہ کی تلاوت کی: «وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ» ”اللہ تعالیٰ نے جنہیں مال دیا ہے وہ بخیلی کر کے یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ وہی مال قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا۔“ (آل عمران: ۱۸۰)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Prophet (ﷺ) * said: “If Allah gives a person wealth and he does not pay Zakah on it, his wealth will appear to him on the Day of Resurrection as a bald- headed Shuja’a with two dots above its eyes. It will take hold of the corners of his mouth on the Day of Resurrection and will say: ‘I am your wealth, I am your hoarded treasure.’ Then he recited this verse: ‘And let not those who covetously withhold of that which Allah has bestowed on them of His Bounty (wealth) and think that it is good for them (and so they do not pay the obligatory Zakah).” (Sahih)