Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Minerals)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2494.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے گری پڑی چیز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جو چیز آمد و رفت والے راستے سے یا آباد بستی سے ملے تو اس کا ایک سال تک اعلان کرو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ تمہارے لیے جائز ہے۔ اور جو چیز آمد ورفت والے راستے سے یا آباد بستی سے نہ ملے تو ایسی چیز اور مدفون خزانہ (ملنے کی صورت) میں پانچواں حصہ ہے۔“
تشریح:
(1) اس روایت میں کان (معدنی) کا ذکر نہیں۔ شاید امام نسائی رحمہ اللہ نے کان کو لقطہ کا حکم دیا ہے کیونکہ کان بھی عموماً بے آباد جگہ پر اور راستے سے دور مقامات میں ہوتی ہے۔ اس صورت میں کان سے نکلنے والی معدنیات میں سے پانچواں حصہ بیت المال کا ہوگا، باقی کان دریافت کرنے والے کا ہوگا۔ احناف کا بھی یہی موقف ہے مگر اس کی کوئی صریح دلیل نہیں سوائے قیاس کے۔ لقطہ پر قیاس کیا جائے یا مدفون خزانے پر یا مال غنیمت پر۔ جمہور اہل علم، جیسے مالک، شافعی، احمد اور امام بخاری رحمہم اللہ نے اسے مال تجارت سمجھ کر اس پر چالیسواں حصہ زکاۃ عائد کی ہے۔ مناسب بھی یہی ہے کیونکہ صریح حکم کے بغیر سخت زکاۃ، یعنی پانچواں حصہ مناسب نہیں جیسا کہ احناف کا خیال ہے۔ (2) آمد ورفت والے راستے سے یا آباد بستی کے لقطہ (گری پڑی چیز جو کسی کو مل جائے) میں مالک کے ملنے کا امکان زیادہ بلکہ یقینی ہوتا ہے، اس لیے اعلان کا حکم دیا اور وہ بھی ایک سال تک کیونکہ سال میں عموماً سفر دوبارہ ہو ہی جاتا ہے۔ غیر آباد راستے یا آبادی سے دور ملنے والی چیز کے مالک کے ملنے کا امکان کم ہوتا ہے، لہٰذا اعلان کی ضرورت محسوس نہ فرمائی، البتہ اس میں حکومت کا حصہ پانچواں رکھ دیا کیونکہ یہ مال اسے بغیر محنت کے ملا ہے۔ امام صاحب نے معدنی کان کو بھی اس پر قیاس کر لیا کہ وہ بھی بغیر محنت کے ملتی ہے، حالانکہ کان دریافت کرنے کے لیے بہت محنت بلکہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں اور پھر کان سے معدنیات نکالنے میں بھی بہت محنت اور اخراجات کی ضرورت پڑتی ہے، لہٰذا یہ قیاس مناسب نہیں۔ واللہ أعلم (3) ”ورنہ تیرے لیے جائز ہے۔“ احناف نے اسے فقیر کے ساتھ خاص کیا ہے، حالانکہ اگر ایسی بات ہوتی تو رسول اللہﷺ ضرور بیان فرماتے ہیں کیونکہ آپﷺ کا فرمان تو مستقل حجت ہے۔ اس کے لیے صرف یہ امکان کافی نہیں کہ سائل فقیر ہوگا۔ بعض روایات میں آپ نے یہی اجازت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فرمائی تھی، حالانکہ وہ مشہور غنی تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2495
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2493
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2496
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے گری پڑی چیز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جو چیز آمد و رفت والے راستے سے یا آباد بستی سے ملے تو اس کا ایک سال تک اعلان کرو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ تمہارے لیے جائز ہے۔ اور جو چیز آمد ورفت والے راستے سے یا آباد بستی سے نہ ملے تو ایسی چیز اور مدفون خزانہ (ملنے کی صورت) میں پانچواں حصہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت میں کان (معدنی) کا ذکر نہیں۔ شاید امام نسائی رحمہ اللہ نے کان کو لقطہ کا حکم دیا ہے کیونکہ کان بھی عموماً بے آباد جگہ پر اور راستے سے دور مقامات میں ہوتی ہے۔ اس صورت میں کان سے نکلنے والی معدنیات میں سے پانچواں حصہ بیت المال کا ہوگا، باقی کان دریافت کرنے والے کا ہوگا۔ احناف کا بھی یہی موقف ہے مگر اس کی کوئی صریح دلیل نہیں سوائے قیاس کے۔ لقطہ پر قیاس کیا جائے یا مدفون خزانے پر یا مال غنیمت پر۔ جمہور اہل علم، جیسے مالک، شافعی، احمد اور امام بخاری رحمہم اللہ نے اسے مال تجارت سمجھ کر اس پر چالیسواں حصہ زکاۃ عائد کی ہے۔ مناسب بھی یہی ہے کیونکہ صریح حکم کے بغیر سخت زکاۃ، یعنی پانچواں حصہ مناسب نہیں جیسا کہ احناف کا خیال ہے۔ (2) آمد ورفت والے راستے سے یا آباد بستی کے لقطہ (گری پڑی چیز جو کسی کو مل جائے) میں مالک کے ملنے کا امکان زیادہ بلکہ یقینی ہوتا ہے، اس لیے اعلان کا حکم دیا اور وہ بھی ایک سال تک کیونکہ سال میں عموماً سفر دوبارہ ہو ہی جاتا ہے۔ غیر آباد راستے یا آبادی سے دور ملنے والی چیز کے مالک کے ملنے کا امکان کم ہوتا ہے، لہٰذا اعلان کی ضرورت محسوس نہ فرمائی، البتہ اس میں حکومت کا حصہ پانچواں رکھ دیا کیونکہ یہ مال اسے بغیر محنت کے ملا ہے۔ امام صاحب نے معدنی کان کو بھی اس پر قیاس کر لیا کہ وہ بھی بغیر محنت کے ملتی ہے، حالانکہ کان دریافت کرنے کے لیے بہت محنت بلکہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں اور پھر کان سے معدنیات نکالنے میں بھی بہت محنت اور اخراجات کی ضرورت پڑتی ہے، لہٰذا یہ قیاس مناسب نہیں۔ واللہ أعلم (3) ”ورنہ تیرے لیے جائز ہے۔“ احناف نے اسے فقیر کے ساتھ خاص کیا ہے، حالانکہ اگر ایسی بات ہوتی تو رسول اللہﷺ ضرور بیان فرماتے ہیں کیونکہ آپﷺ کا فرمان تو مستقل حجت ہے۔ اس کے لیے صرف یہ امکان کافی نہیں کہ سائل فقیر ہوگا۔ بعض روایات میں آپ نے یہی اجازت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فرمائی تھی، حالانکہ وہ مشہور غنی تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے راستہ میں پڑی ہوئی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جو چیز چالو راستے میں ملے یا آباد بستی میں، تو سال بھر اسے پہنچواتے رہو، اگر اس کا مالک آ جائے (اور پہچان بتائے) تو اسے دے دو، ورنہ وہ تمہاری ہے، اور جو کسی چالو راستے یا کسی آباد بستی کے علاوہ میں ملے تو اس میں اور جاہلیت کے دفینوں میں پانچواں حصہ ہے“ (یعنی: زکاۃ نکال کر خود استعمال کر لے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Amr bin Shuaib, from his father, that his grandfather said: “The Messenger of Allah (ﷺ) was asked about Al-Luqtah. He said: ‘That which is found on a much- traveled road or in an inhabited village, announce it for a year. If its owner comes (and takes it, well and good), otherwise it is yours. That which was not found on a much-traveled road or in an inhabited village is subject to the Khums, as is Rikaz.” (Hasan)