Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Obligation Of Zakah Of Ramadan For Children)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2503.
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک کا صدقہ فطر ہر آزاد، غلام، مذکر ومونث مسلمان پر کھجور اور جو سے ایک صاع مقرر فرمایا ہے۔
تشریح:
(1) صدقہ فطر ایک عبادت ہے۔ روزوں کی بنا پر واجب ہوتا ہے۔ ادائیگی عید الفطر سے پہلے کی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں، لہٰذا مسلمان ہی پر واجب ہوگا، کسی کافر پر واجب نہ ہوگا۔ من المسلمین کے الفاظ اس کی واضح دلیل ہیں۔ مگر احناف کے نزدیک کافر غلام پر بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے: [ليسَفيالعَبْدِ صَدَقَةٌ إلّا صَدَقَةُ الفِطْرِ] ”مسلمان پر اس کے غلام میں صرف صدقہ فطر ہی واجب ہے۔“ (صحیح مسلم، الزکا ة، حدیث: ۱۰۹۸۲) حدیث میں ”عبد“ عام ہے، خواہ مسلم ہو یا کافر، لیکن یہ حدیث عام ہے اس کا مفہوم دوسری صریح حدیث کی روشنی میں متعین ہوگا اور وہ یہی مذکورہ بالا حدیث ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ جن کی طرف سے نکالا جائے وہ مسلم ہو، اور زیر بحث حدیث خاص بھی ہے، اصول ہے کہ عام کو خاص پر محمول کیا جاتا ہے، اس طرح دونوں احادیث کا مفہوم برقرار رہتا ہے اور ان میں تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا۔ امام طحاوی اس مذکورہ بالا حدیث کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق مخرجین، یعنی صدقہ نکالنے والوں کے ساتھ ہے، نہ کہ ان سے جن کی طرف سے صدقہ دیا جاتا ہے، لیکن یہ تاویل بلا دلیل اور دیگر دلائل وروایات کی روشنی میں بے معنیٰ ہے، اس لیے کہ اس حدیث میں غلام کا اور ایک دوسری صحیح حدیث میں بچے کا بھی ذکر آتا ہے کیا یہ بھی مخرجین میں شمار ہوتے ہیں، نیز صحیح مسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کی طرف سے صدقہ فطر نکالا جائے گا۔ [عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، حُرٍّ اَوْ عَبْدٍ…] ”مسلمانوں کے ہر فرد پر (فرض کیا ہے) خواہ وہ آزاد ہو یا غلام۔“ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: ۹۸۴/ ۱۶) جب کافر وجوب کا اہل ہی نہیں تو اس کی طرف سے ادائیگی کیسی؟ (2) ہر مسلمان کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فقیر اور محتاج بھی صدقہ فطر ادا کرے گا۔ (3) ”رمضان کی زکاۃ۔“ ایک دوسری روایت میں رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں: [طُھْرَۃً لِلصِّیَامِ… وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْن] (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: ۱۶۰۹) یعنی یہ ادا شدہ روزوں کو پاکیزہ بنائے گا اور یاوہ گوئی کی آلودگی سے روزے کو صاف کرے گا، نیز مساکین کے لیے کھانے کا انتظام ہو جائے گا، اس لیے صدقۃ الفطر کو روزوں یا رمضان کی زکاۃ کہنا مناسب ہے۔ یہاں زکاۃ کے معنیٰ پاکیزگی ہیں۔ (باقی مباحث کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۵۱۰)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2504
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2502
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2505
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک کا صدقہ فطر ہر آزاد، غلام، مذکر ومونث مسلمان پر کھجور اور جو سے ایک صاع مقرر فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صدقہ فطر ایک عبادت ہے۔ روزوں کی بنا پر واجب ہوتا ہے۔ ادائیگی عید الفطر سے پہلے کی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں، لہٰذا مسلمان ہی پر واجب ہوگا، کسی کافر پر واجب نہ ہوگا۔ من المسلمین کے الفاظ اس کی واضح دلیل ہیں۔ مگر احناف کے نزدیک کافر غلام پر بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے: [ليسَفيالعَبْدِ صَدَقَةٌ إلّا صَدَقَةُ الفِطْرِ] ”مسلمان پر اس کے غلام میں صرف صدقہ فطر ہی واجب ہے۔“ (صحیح مسلم، الزکا ة، حدیث: ۱۰۹۸۲) حدیث میں ”عبد“ عام ہے، خواہ مسلم ہو یا کافر، لیکن یہ حدیث عام ہے اس کا مفہوم دوسری صریح حدیث کی روشنی میں متعین ہوگا اور وہ یہی مذکورہ بالا حدیث ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ جن کی طرف سے نکالا جائے وہ مسلم ہو، اور زیر بحث حدیث خاص بھی ہے، اصول ہے کہ عام کو خاص پر محمول کیا جاتا ہے، اس طرح دونوں احادیث کا مفہوم برقرار رہتا ہے اور ان میں تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا۔ امام طحاوی اس مذکورہ بالا حدیث کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق مخرجین، یعنی صدقہ نکالنے والوں کے ساتھ ہے، نہ کہ ان سے جن کی طرف سے صدقہ دیا جاتا ہے، لیکن یہ تاویل بلا دلیل اور دیگر دلائل وروایات کی روشنی میں بے معنیٰ ہے، اس لیے کہ اس حدیث میں غلام کا اور ایک دوسری صحیح حدیث میں بچے کا بھی ذکر آتا ہے کیا یہ بھی مخرجین میں شمار ہوتے ہیں، نیز صحیح مسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کی طرف سے صدقہ فطر نکالا جائے گا۔ [عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، حُرٍّ اَوْ عَبْدٍ…] ”مسلمانوں کے ہر فرد پر (فرض کیا ہے) خواہ وہ آزاد ہو یا غلام۔“ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: ۹۸۴/ ۱۶) جب کافر وجوب کا اہل ہی نہیں تو اس کی طرف سے ادائیگی کیسی؟ (2) ہر مسلمان کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فقیر اور محتاج بھی صدقہ فطر ادا کرے گا۔ (3) ”رمضان کی زکاۃ۔“ ایک دوسری روایت میں رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں: [طُھْرَۃً لِلصِّیَامِ… وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْن] (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: ۱۶۰۹) یعنی یہ ادا شدہ روزوں کو پاکیزہ بنائے گا اور یاوہ گوئی کی آلودگی سے روزے کو صاف کرے گا، نیز مساکین کے لیے کھانے کا انتظام ہو جائے گا، اس لیے صدقۃ الفطر کو روزوں یا رمضان کی زکاۃ کہنا مناسب ہے۔ یہاں زکاۃ کے معنیٰ پاکیزگی ہیں۔ (باقی مباحث کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۵۱۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا صدقہ فطر مسلمان لوگوں پر ہر آزاد، غلام مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو فرض ٹھہرایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Umar that the Messenger of Allah (ﷺ) enjoined Zakatul-Fitr at the end of Ramadan upon the people; a Sa' of dates or a Sa’ of barley, upon everyone, free or slave, male or female, of the Muslims. (Sahih)