Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Charity From Ghulul[1])
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2525.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جب بھی کوئی شخص حلال مال سے صدقہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ قبول بھی حلال مال ہی فرماتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں وصول کرتا ہے، اگرچہ وہ صدقہ ایک کھجور ہی ہو، پھر وہ کھجور رب رحمان کی ہتھیلی میں بڑھتی رہتی ہے حتیٰ کہ وہ پہاڑ سے بھی بڑی ہو جاتی ہے، جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا پوستا ہے۔“
تشریح:
اللہ تعالیٰ کی صفات جس طرح قرآن وحدیث میں وارد ہیں ان پر اسی طرح ایمان لانا واجب ہے۔ ان میں تشبیہ و تمثیل اور تاویل و تعیطل سے کام لینا جائز نہیں سلف کا اس پر اجماع ہے۔ بعض نے ان صفات کی تاویلات کی ہیں جو کہ قابل التفات نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2526
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2524
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2526
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جب بھی کوئی شخص حلال مال سے صدقہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ قبول بھی حلال مال ہی فرماتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں وصول کرتا ہے، اگرچہ وہ صدقہ ایک کھجور ہی ہو، پھر وہ کھجور رب رحمان کی ہتھیلی میں بڑھتی رہتی ہے حتیٰ کہ وہ پہاڑ سے بھی بڑی ہو جاتی ہے، جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا پوستا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ کی صفات جس طرح قرآن وحدیث میں وارد ہیں ان پر اسی طرح ایمان لانا واجب ہے۔ ان میں تشبیہ و تمثیل اور تاویل و تعیطل سے کام لینا جائز نہیں سلف کا اس پر اجماع ہے۔ بعض نے ان صفات کی تاویلات کی ہیں جو کہ قابل التفات نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص بھی اپنے پاکیزہ مال سے صدقہ دیتا ہے (اور اللہ پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے) تو رحمن عزوجل اسے اپنے داہنے ہاتھ میں لیتا ہے گو وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، پھر وہ رحمن کے ہاتھ میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑھتے بڑھتے پہاڑ سے بھی بڑا ہو جاتا ہے، جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے یا اونٹنی کے چھوٹے بچے کو پالتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘None gives charity from (wealth earned from) a good source - and Allah does not accept anything but that which is good — but the Most Merciful takes it in His right hand, even if it is a date, and it is tended in the hand of the Most Merciful until it becomes greater than a mountain, just as one of you tends his foal or camel calf.” (Sahih)