کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: (غسل کے آخر میں)پاؤں غسل والی جگہ کے بجائے دوسری جگہ دھوئے
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: Washing The Feet In A Place Other Than That Where One Performed Ghusl)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
253.
ام المومنین حضرت میمونہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کے غسل جنابت کے لیے پانی قریب کیا۔ آپ نے اپنی ہتھیلیوں کو دو یا تین بار دھویا، پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس سے اپنی شرم گاہ پر پانی ڈالا، پھر اسے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر بایاں ہاتھ زمین پر مارا اور اسے زور سے رگڑا، پھر نماز والا وضو کیا، پھر اپنے سر پر دونوں ہاتھ بھر بھر کر تین دفعہ پانی ڈالا، پھر اپنے باقی (سارے) جسم کو دھویا، پھر اس جگہ سے ایک طرف ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے، پھر میں آپ کے پاس رومال لائی تو آپ نے واپس کردیا۔
تشریح:
(1) مٹی پر ہاتھ رگڑنا بدبو اور لیس کو ختم کرتا ہے اور آلودگی سے وسوسے کو بھی دور کر دیتا ہے، لہٰذا استنجے کے بعد یہ مستحب ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فرش کچے ہوتے تھے، لہٰذا غسل کا پانی پاؤں میں جمع ہو جاتا تھا۔ اسی جگہ پاؤں دھونے میں کوئی فائدہ نہ تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہٹ کر پاؤں دھوتے تھے، البتہ اگر پانی جمع نہ ہوتا ہو تو اسی جگہ پاؤں دھوئے جا سکتے ہیں۔ (3) غسل یا وضو کے بعد رومال استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا رومال پیش کرنا، اس کے جواز کی دلیل ہے کہ آپ کے گھر میں رومال تھا۔ باقی رہا آپ کا واپس کرنا تو وہ کسی اور وجہ سے ہوگا، مثلاً: آپ چاہتے ہوں گے کہ پانی کچھ دیر جسم پر رہے تاکہ ٹھنڈک محسوس ہو، وغیرہ۔ (4) رومال پانی کے ساتھ ساتھ میل کچیل کو بھی اچھی طرح صاف کر دیتا ہے اور یہی غسل سے مطلوب ہے، نیز غسل کے بعد پانی کا جسم پر رہنا شرعاً مطلوب نہیں اور یہ رہ بھی نہیں سکتا، ہوا یا کپڑوں سے جلد یا بدیر خشک ہو ہی جائے گا۔ (5) جو شخص ٹب وغیرہ سے چلو بھر کر پانی لینا چاہے، اسے چاہیے کہ اپنی ہتھیلیاں پہلے دھولے تاکہ پانی آلودہ نہ ہو۔ (6) شرم گاہ دھونے کے لیے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم) .
إسناده: حدثنا عمرو بن علي الباهلي: ثنا محمد بن أبي عدي: ثني سعيد
عن أبي معشر عن النَّخَعِيِّ عن الأسود عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم ، وأبو معشر: هو زياد بن كلَيْب.
وسعيد: هو ابن أبي عروبة.
والحديث أخرجه أحمد (6/171) : ثنا محمد بن جعفر قال: ثنا سعيد.
وعبد الوهاب عن سعيد... به.
وقد جاء ضرب اليدين على الحائط من حديث ميمونة أيضا في رواية عنها؛
كما سنذكره فيما يليه.
ام المومنین حضرت میمونہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کے غسل جنابت کے لیے پانی قریب کیا۔ آپ نے اپنی ہتھیلیوں کو دو یا تین بار دھویا، پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس سے اپنی شرم گاہ پر پانی ڈالا، پھر اسے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر بایاں ہاتھ زمین پر مارا اور اسے زور سے رگڑا، پھر نماز والا وضو کیا، پھر اپنے سر پر دونوں ہاتھ بھر بھر کر تین دفعہ پانی ڈالا، پھر اپنے باقی (سارے) جسم کو دھویا، پھر اس جگہ سے ایک طرف ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے، پھر میں آپ کے پاس رومال لائی تو آپ نے واپس کردیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مٹی پر ہاتھ رگڑنا بدبو اور لیس کو ختم کرتا ہے اور آلودگی سے وسوسے کو بھی دور کر دیتا ہے، لہٰذا استنجے کے بعد یہ مستحب ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فرش کچے ہوتے تھے، لہٰذا غسل کا پانی پاؤں میں جمع ہو جاتا تھا۔ اسی جگہ پاؤں دھونے میں کوئی فائدہ نہ تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہٹ کر پاؤں دھوتے تھے، البتہ اگر پانی جمع نہ ہوتا ہو تو اسی جگہ پاؤں دھوئے جا سکتے ہیں۔ (3) غسل یا وضو کے بعد رومال استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا رومال پیش کرنا، اس کے جواز کی دلیل ہے کہ آپ کے گھر میں رومال تھا۔ باقی رہا آپ کا واپس کرنا تو وہ کسی اور وجہ سے ہوگا، مثلاً: آپ چاہتے ہوں گے کہ پانی کچھ دیر جسم پر رہے تاکہ ٹھنڈک محسوس ہو، وغیرہ۔ (4) رومال پانی کے ساتھ ساتھ میل کچیل کو بھی اچھی طرح صاف کر دیتا ہے اور یہی غسل سے مطلوب ہے، نیز غسل کے بعد پانی کا جسم پر رہنا شرعاً مطلوب نہیں اور یہ رہ بھی نہیں سکتا، ہوا یا کپڑوں سے جلد یا بدیر خشک ہو ہی جائے گا۔ (5) جو شخص ٹب وغیرہ سے چلو بھر کر پانی لینا چاہے، اسے چاہیے کہ اپنی ہتھیلیاں پہلے دھولے تاکہ پانی آلودہ نہ ہو۔ (6) شرم گاہ دھونے کے لیے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میری خالہ ام المؤمنین میمونہ ؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل جنابت کا پانی لا کر رکھا، تو آپ ﷺ نے دو یا تین بار اپنے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کیا تو اس سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے زور سے ملا، پھر اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر پر تین لپ بھربھر کر ڈالا، پھر اپنے پورے جسم کو دھویا، پھر آپ اپنی جگہ سے الگ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، ام المؤمنین میمونہ ؓ کہتی ہیں: پھر میں تولیہ لے کر آئی تو آپ ﷺ نے اسے واپس کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “My maternal aunt Maimunah told me: ‘I brought the Messenger of Allah (ﷺ) water for his Ghusl from Janabah, and he washed his hands two or three times, then he put his right hand in the vessel and poured water over his private part, then he washed it with his left hand. Then he put his left hand on the ground and rubbed it hard. Then he performed Wudu as for prayer, then he poured three scoops with his two hands full of water over his head, then he washed his entire body, then he moved away from where he had been standing and washed his feet.’ She said: ‘Then I brought him a towel but he refused it.” (Sahih)