تشریح:
(1) ”کمی نہیں کرتا۔“ کیونکہ ہر کسی کو اپنے حصے کا ثواب ملتا ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ سب کا ثواب برابر ہو۔ ثواب تو خلوص، محنت ومشقت اور حسن نیت کی بنیاد پر ملتا ہے اور اس میں لوگ مختلف ہوتے ہیں۔
(2) عورت اپنے خاوند کے گھر سے صدقہ کر سکتی ہے بشرطیکہ خاوند کی طرف سے صراحتاً یا عرفاً اجازت ہو۔ عرفاً اجازت سے مراد رضا مندی ہے۔ اس کے لیے علم ہونا کوئی ضروری نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 369 :
رواه البخاري ( 2 / 117 ، 119 ، 120 ) و مسلم ( 3 / 90 ) و أبو داود ( 1 / 267
) و النسائي ( 1 / 351 - 352 ) و الترمذي ( 1 / 130 ) و صححه و ابن ماجه ( 2 /
44 ) و أحمد ( 6 / 44 ، 99 ، 278 ) من حديث عائشة مرفوعا .
و لطرفه الأول شاهد بلفظ :
" إذا أنفقت المرأة من كسب زوجها من غير أمره فله نصف أجره "