Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: A Woman Giving (Charity) Without Her Husband's Permission)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2540.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ”کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ خاوند کی اجازت کے بغیر کوئی تحفہ یا عطیہ دے۔“ یہ روایت مختصر ہے۔
تشریح:
اس سے مراد خاوند کے گھر سے عطیہ ہے ورنہ اگر عورت اپنے مال سے عطیہ دے تو خاوند کی اجازت ضروری نہیں۔ لیکن پھر بھی حسن معاشرت اور خاوند کو اعتماد میں لینے کے لیے اس سے صلاح مشورہ کرلینا ہی بہتر ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 419 :
أخرجه تمام في " الفوائد " ( 10 / 182 / 2 ) من طريق عنبسة بن سعيد ، عن حماد
مولى بني أمية عن جناح مولى الوليد عن واثلة قال : قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم : فذكره .
قلت : و هذا إسناد ضعيف ، حماد مولى بني أمية كأنه مجهول ، لم يذكروا فيه شيئا
سوى أن الأزدي تركه . و قد ذكر تمام أن اسم أبيه صالح ، و هذه فائدة لم يذكروها
في ترجمته . و كذلك لم يذكروا اسم والد شيخه جناح ، و قد سماه تمام عبادا ، و
ترجمه ابن أبي حاتم ( 1 / 1 / 537 ) برواية جماعة من الثقات عنه .
و أورده ابن حبان في " الثقات " . و عنبسة بن سعيد ، الظاهر أنه ابن أبان بن
سعيد بن العاص أبو خالد الأموي ، وثقه الدارقطني . و الحديث عزاه السيوطي
للطبراني في " الكبير " ، و قال المناوي : " قال الهيثمي : و فيه جماعة لم
أعرفهم " .
قلت : لكن للحديث شواهد تدل على أنه ثابت ، و بعضها حسن لذاته ، و هو من حديث
عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده . و صححه الحاكم و الذهبي ، و روي من حديث عبد
الله بن يحيى الأنصاري عن أبيه عن جده مرفوعا . رواه الطحاوي ( 2 / 403 ) .
و من حديث عبادة بن الصامت . أخرجه أحمد ( 5 / 327 ) .
و سيأتي تخريج حديث ابن عمرو و حديث الأنصاري برقم ( 825 ) .
قلت : و هذا الحديث و ما أشرنا إليه مما في معناه يدل على أن المرأة لا يجوز
لها أن تتصرف بمالها الخاص بها إلا بإذن زوجها ، و ذلك من تمام القوامة التي
جعلها ربنا تبارك و تعالى له عليها ، و لكن لا ينبغي للزوج - إذا كان مسلما
صادقا - أن يستغل هذا الحكم ، فيتجبر على زوجته ، و يمنعها من التصرف في مالها
فيما لا ضير عليهما منه ، و ما أشبه هذا الحق بحق ولي البنت التي لا يجوز لها
أن تزوج نفسها بدون إذن وليها ، فإذا أعضلها رفعت الأمر إلى القاضي الشرعي
لينصفها ، و كذلك الحكم في مال المرأة إذا جار عليها زوجها ، فمنعها من التصرف
المشروع في مالها . فالقاضي ينصفها أيضا . فلا إشكال على الحكم نفسه ، و إنما
الإشكال في سوء التصرف به . فتأمل .
الصحيحة ( 775 و 825 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2541
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2539
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2541
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ”کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ خاوند کی اجازت کے بغیر کوئی تحفہ یا عطیہ دے۔“ یہ روایت مختصر ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس سے مراد خاوند کے گھر سے عطیہ ہے ورنہ اگر عورت اپنے مال سے عطیہ دے تو خاوند کی اجازت ضروری نہیں۔ لیکن پھر بھی حسن معاشرت اور خاوند کو اعتماد میں لینے کے لیے اس سے صلاح مشورہ کرلینا ہی بہتر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کر لیا، تو تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے (منجملہ اور باتوں کے) اپنی تقریر میں فرمایا: ”کسی عورت کا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں“، یہ حدیث مختصر ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Abdullah bin ‘Amr said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) conquered Makkah, he stood up to address the people and said in his Khutbah ‘It is not permissible for a woman to give anything without her husband’s permission.” (He narrated it) in abridged form. (Hasan)