Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Virtue Of Charity)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2541.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبیﷺ کی ازواج مطہرات آپ کے پاس اکٹھی ہوئیں اور کہنے لگیں: ہم میں سے کون آپ سے جلدی ملے گی؟ آپ نے فرمایا: ”جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے۔“ انھوں نے ایک بانس سے ہاتھ ماپنے شروع کر دیے (وہ آپ کی مراد یہی سمجھیں جس کا ہاتھ لمبا ہو)۔ (اس لحاظ سے) حضرت سودہؓ آپ سے جلدی ملنے والی تھیں کیونکہ ان کے ہاتھ ان سب سے لمبے تھے۔ (دراصل) اس سے مراد صدقے کی کثرت تھی۔
تشریح:
(1) یہ رسول اللہﷺ کے مرض وفات کی بات ہے۔ اور یہ سوال کرنے والی حضرت عائشہؓ خود تھیں۔ (2) یہ روایت مختصر ہے۔ اصل صورت واقعہ یہ ہے کہ ہاتھ ماپنے سے معلوم ہوا کہ حضرت سودہؓ کے ہاتھ لمبے ہیں، لہٰذا سب کا خیال تھا کہ وہی پہلے فوت ہوں گی۔ ویسے بھی وہ عمر کے لحاظ سے سب سے بڑی تھیں، مگر اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت زینب بنت جحشؓ پہلے فوت ہوگئیں۔ تو غور کرنے سے پتا چلا کہ ہاتھوں کی طوالت سے مراد ظاہری طوالت نہیں بلکہ صدقے کی کثرت تھی۔ (جس طرح ہم سخی شخص کو کھلے ہاتھوں والا کہہ دیتے ہیں) حضرت زینبؓ سخی خاتون تھیں۔ ویسے وہ قد کے لحاظ سے چھوٹی تھیں جبکہ حضرت سودہؓ بڑے قد کاٹھ کی مالک تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو۔ ترجمے میں قوسین وغیرہ کے ذریعہ سے کوشش کی گئی ہے کہ روایت اصل صورت حال کے مطابق ہو جائے ورنہ روایت کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سودہؓ سب سے پہلے فوت ہوگئیں، حالانکہ یہ بات تاریخی لحاظ سے غلط ہے۔ حضرت سودہؓ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۵۴ ہجری میں فوت ہوئیں اور حضرت زینبؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۳۰ ہجری میں ازواج مطہرات میں سب سے پہلے فوت ہوئیں۔ یہ بات تاریخی طور پر متفق عطیہ ہے۔ اور بعض احادیث میں بھی یہ تفصیل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2542
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2540
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2542
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبیﷺ کی ازواج مطہرات آپ کے پاس اکٹھی ہوئیں اور کہنے لگیں: ہم میں سے کون آپ سے جلدی ملے گی؟ آپ نے فرمایا: ”جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے۔“ انھوں نے ایک بانس سے ہاتھ ماپنے شروع کر دیے (وہ آپ کی مراد یہی سمجھیں جس کا ہاتھ لمبا ہو)۔ (اس لحاظ سے) حضرت سودہؓ آپ سے جلدی ملنے والی تھیں کیونکہ ان کے ہاتھ ان سب سے لمبے تھے۔ (دراصل) اس سے مراد صدقے کی کثرت تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ رسول اللہﷺ کے مرض وفات کی بات ہے۔ اور یہ سوال کرنے والی حضرت عائشہؓ خود تھیں۔ (2) یہ روایت مختصر ہے۔ اصل صورت واقعہ یہ ہے کہ ہاتھ ماپنے سے معلوم ہوا کہ حضرت سودہؓ کے ہاتھ لمبے ہیں، لہٰذا سب کا خیال تھا کہ وہی پہلے فوت ہوں گی۔ ویسے بھی وہ عمر کے لحاظ سے سب سے بڑی تھیں، مگر اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت زینب بنت جحشؓ پہلے فوت ہوگئیں۔ تو غور کرنے سے پتا چلا کہ ہاتھوں کی طوالت سے مراد ظاہری طوالت نہیں بلکہ صدقے کی کثرت تھی۔ (جس طرح ہم سخی شخص کو کھلے ہاتھوں والا کہہ دیتے ہیں) حضرت زینبؓ سخی خاتون تھیں۔ ویسے وہ قد کے لحاظ سے چھوٹی تھیں جبکہ حضرت سودہؓ بڑے قد کاٹھ کی مالک تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو۔ ترجمے میں قوسین وغیرہ کے ذریعہ سے کوشش کی گئی ہے کہ روایت اصل صورت حال کے مطابق ہو جائے ورنہ روایت کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سودہؓ سب سے پہلے فوت ہوگئیں، حالانکہ یہ بات تاریخی لحاظ سے غلط ہے۔ حضرت سودہؓ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۵۴ ہجری میں فوت ہوئیں اور حضرت زینبؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ۳۰ ہجری میں ازواج مطہرات میں سب سے پہلے فوت ہوئیں۔ یہ بات تاریخی طور پر متفق عطیہ ہے۔ اور بعض احادیث میں بھی یہ تفصیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی محترم بیویاں (ازواج مطہرات) آپ کے پاس اکٹھا ہوئیں، اور پوچھنے لگیں کہ ہم میں کون آپ سے پہلے ملے گی؟ آپ نے فرمایا: ”تم میں سب سے لمبے ہاتھ والی“، ازواج مطہرات ایک بانس کی کھپچی لے کر ایک دوسرے کا ہاتھ ناپنے لگیں، تو وہ ام المؤمنین سودہ ؓ تھیں جو سب سے پہلے آپ سے ملیں، وہی سب میں لمبے ہاتھ والی تھیں، یہ ان کے بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے کی وجہ سے تھا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی آپ کی بیویوں میں سب سے پہلے انہیں کا انتقال ہوا، وہ لمبے ہاتھ والی اس معنیٰ میں تھیں کہ وہ بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرتی تھیں، بعض روایتوں میں سودہ کے بجائے زینب کا نام آیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah (RA), that the wives of the Prophet (ﷺ) gathered around him and said:“Which of us will be the first to follow you (in death)?” He said: “The one of you who has the longest arms.” They took a stick and started to measure their arms. But Sawdah was the first one to follow him. She was the one who had the longest arms, because she used to give in charity a great deal. (Sahih)