Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Counting What One Give In Charity)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2551.
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے مروی ہے کہ میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرے پاس ذاتی مال تو کوئی نہیں مگر جو (میرے خاوند) حضرت زبیر ؓ مجھے لا کر دیتے ہیں، کیا مجھے گناہ ہوگا اگر میں اس سے عطیہ وغیرہ دوں؟ آپ نے فرمایا: ”جتنی گنجائش ہو، عطیے دے اور باندھ باندھ کر نہ رکھ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ پر باندھ دے گا۔“
تشریح:
(1) باندھ کر رکھنے سے مراد کنجوسی ہے کہ اگر تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں نہ دے گی تو اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے رزق روک لے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے باندھنے کا ذکر تشاکل (علم معانی کی ایک اصطلاح) کے طور پر ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ (2) اس روایت میں عطیات سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے عطیات ہیں جن کی عرفاً ہر گھر میں اجازت ہوتی ہے۔ اگر زیادہ مال دینا ہو تو خاوند کی اجازت ضروری ہے کیونکہ وہ مال کا اصل مالک ہے۔ اگرچہ ہر چیز اللہ ہی کی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2552
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2550
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2552
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے مروی ہے کہ میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرے پاس ذاتی مال تو کوئی نہیں مگر جو (میرے خاوند) حضرت زبیر ؓ مجھے لا کر دیتے ہیں، کیا مجھے گناہ ہوگا اگر میں اس سے عطیہ وغیرہ دوں؟ آپ نے فرمایا: ”جتنی گنجائش ہو، عطیے دے اور باندھ باندھ کر نہ رکھ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ پر باندھ دے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) باندھ کر رکھنے سے مراد کنجوسی ہے کہ اگر تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں نہ دے گی تو اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے رزق روک لے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے باندھنے کا ذکر تشاکل (علم معانی کی ایک اصطلاح) کے طور پر ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ (2) اس روایت میں عطیات سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے عطیات ہیں جن کی عرفاً ہر گھر میں اجازت ہوتی ہے۔ اگر زیادہ مال دینا ہو تو خاوند کی اجازت ضروری ہے کیونکہ وہ مال کا اصل مالک ہے۔ اگرچہ ہر چیز اللہ ہی کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، اور کہنے لگیں: اللہ کے نبی! میرے پاس تو کچھ ہوتا نہیں ہے سوائے اس کے کہ جو زبیر (میرے شوہر) مجھے (کھانے یا خرچ کرنے کے لیے) دے دیتے ہیں، تو کیا اس دیے ہوئے میں سے میں کچھ (فقراء و مساکین کو) دے دوں تو مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”تم جو کچھ دے سکو دو، اور روکو نہیں کہ اللہ عزوجل بھی تم سے روک لے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Asma’ bint Abi Bakr that she came to the Prophet (ﷺ) and said: “Prophet (ﷺ) of Allah, I do not have anything but that which Az-Zubair brings to me. Is there any sin on me if I give a small amount of that which he brings to me?” He said: “Give whatever you can, and do not withhold what you have, lest Allah withhold provision from you.” (Sahih)