Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Meaning Of Al-Miskin (The Poor))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2571.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں جس کو ایک کھجور، دو کھجوریں یا ایک لقمہ، دو لقمے واپس کر دیں، بلکہ مسکین وہ ہے جو حاجت مند ہونے کے باوجود مانگنے سے پرہیز کرے۔ تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو“: ﴿لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا﴾ ”(صدقات کے مستحق وہ لوگ ہیں) جو مانگتے وقت لوگوں کے گلے نہیں پڑ جاتے۔“
تشریح:
”مسکین وہ نہیں۔“ کیونکہ اس قسم کے لوگ عموماً پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں اور دوسروں سے زیادہ امیر ہوتے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ قابل تعریف مسکین نہیں، اگرچہ مسکین تو ہیں۔ یا یہ اس قدر مستحق نہیں جس قدر سوال نہ کرنے والے حاجت مند لوگ مستحق ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: وهو كما قال، والحديث بدون هذه الزيادة صحيح من الطريقين،
وهما على شرط الشيخين. وقد أخرجاه من طرق أخرى بدونها، فهي زيادة
شاذة، والصحيح أنها مقطوعة من كلام الزهري) .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة وزهير بن حرب قالا: ثنا جرير عن
الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة.
حدثنا مسدد وعبيد الله بن عمر وأبو كامل- المعنى- قالوا: ثنا عبد الواحد بن
زياد: ثنا معمر عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله- مثله- قال...
قال أبو داود: " روى هذا: محمد بن ثور وعبد الرزاق عن معمر... جعلا:
" المحروم " من كلام الزهري، وهو أصح ".
قلت: وهذان إسنادان صحيحان كلاهما على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه
بأسانيد أخرى كما يأتي.
والحديث أخرجه أحمد (2/393) : ثنا أبو نعيم قال: ثنا الأعمش... به.
ثم أخرجه هو (2/260) ، والنسائي (1/359) من طريق عبد الأعلى: حدثنا
معمر... به مثل رواية ابن ثور وعبد الرزاق المعلقة عند المصنف، لكن النسائي لم
يذكر زيادة: " فذاك المحروم" مطلقاً.
فقد اتفق ثلاثة من الثقات على رواية هذه الزيادة موقوفاً على الزهري. فرفعها
شاذ ووهم!
والظاهر: أنه من عبد الواحد بن زياد؛ فإنه مع ثقته واحتجاج الشيخين
بحديثه-؛ فقد تكلموا في روايته عن الأعمش خاصة. ولذلك قال الحافظ:
" ثقة، في حديثه عن الأعمش وحده مقال ".
ومما يؤيد شذوذها: أن الحديث أخرجه البخاري (3/265 و 267 و 8/163) ،
ومسلم (3/95- 96) ، والنسائي (1/358) ، والدارمي (1/379) ، والبيهقي
(4/195- 196) ، وأحمد أيضا (2/260 و 316 و 395 و 445 و 449 و 457
و 469 و 506) من طرق عديدة عن أبي هريرة... به نحوه دون الزيادة.
فثبت شذوذها يقيناً.
قلت: ومثلها في الشذوذ: رواية شَرِيكِ بن أبي نَمِر عن عطاء بن يسار عن
أبي هريرة... مرفوعاً به نحوه، وزاد في آخره:
" اقْرَأُوا إن شئتم: (لا يسألون الناس إلحافاً) ".
وابن أبي نَمِر؛ وإن كان من رجال الشيخين؛ فقد تُكُلِّمَ فيه من قبل حفظه،
ومخالفته للثقاتً أحياناً، كمثل ذكره في قصة الإسراء والمعراج أنه كان مناماً! مما
هو مبين في مكان آخر. ولذلك قال الحافظ عنه في "التقريب ":
" صدوق يخطئ ".
وهكذا شذ بهذه الزيادة عن كل الطرق المشار إليها آنفاً عند الشيخين وغيرهما،
فلم يذكرها أحد منهم في الحديث، حتى الإمام مسلم لم يذكرها في هذه الطريق؛
وقد أخرج الحديث من هذا الوجه دونها، مشيراً بذلك إلى شذوذها! والظاهر أنها
مدرجة من بعض الرواة.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2572
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2570
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2572
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں جس کو ایک کھجور، دو کھجوریں یا ایک لقمہ، دو لقمے واپس کر دیں، بلکہ مسکین وہ ہے جو حاجت مند ہونے کے باوجود مانگنے سے پرہیز کرے۔ تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو“: ﴿لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا﴾ ”(صدقات کے مستحق وہ لوگ ہیں) جو مانگتے وقت لوگوں کے گلے نہیں پڑ جاتے۔“
حدیث حاشیہ:
”مسکین وہ نہیں۔“ کیونکہ اس قسم کے لوگ عموماً پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں اور دوسروں سے زیادہ امیر ہوتے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ قابل تعریف مسکین نہیں، اگرچہ مسکین تو ہیں۔ یا یہ اس قدر مستحق نہیں جس قدر سوال نہ کرنے والے حاجت مند لوگ مستحق ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک کھجور یا دو کھجور ایک لقمہ یا دو لقمے (در در) گھماتے اور (گھر گھر) چکر لگواتے ہیں۔ بلکہ مسکین سوال سے بچنے والا ہے ۱؎ اگر تم چاہو تو پڑھو ﴿لا يسألون الناس إلحافا﴾ ”وہ لوگوں سے گڑگڑا کر نہیں مانگتے۔“ (البقرة: ۲۷۳)
حدیث حاشیہ:
۱؎ : جو ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی نہیں مانگتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “The poor man (Miskin) is not the one who leaves if you give him a date or two, or a morsel or two. Rather the poor man is the one who refrains from asking. Recite if you wish: “They do not beg of people at all..” (Sahih)