باب: جو شخص کوئی تاوان اٹھا لے اسے زکاۃ دی جا سکتی ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Charity For The One Who Undertakes A Financial Responsibility)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2579.
حضرت قبیصہ بن مخارق ؓ سے منقول ہے، انھوں نے کہا: میں نے کوئی تاوان اپنے ذمے لے لیا، پھر میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے اس کی (ادائیگی میں تعاون کی) بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے جائز ہے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے کسی قوم میں (صلح کروانے کے لیے) کوئی تاوان اپنے ذمے لے لیا۔ وہ اس سلسلے میں لوگوں سے مدد مانگ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ تاوان اتار دے اور پھر مانگنے سے رک جائے۔“
تشریح:
قرآن مجید میں بھی اس جیسے لوگوں کو زکاۃ کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے: ﴿وَالْغَارِمِينَ﴾(التوبة: ۹ : ۶۰) اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کی لڑائی ختم کرنے کے لیے متنازعہ رقم اپنے ذمے لے لیتا ہے مگر اتنی وسعت نہیں کہ خود ادا کر سکے۔ وہ زکاۃ کا مال لے کر تاوان ادا کر سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، رجاله رجال "الصحيح ". وقد أخرجه مسلم.
وصححه ابن الجارود) .
إسناده: حدثنا مسدد: ثنا حماد بن زيد عن هارود بن رئاب قال: حدثني
كِنَانَةُ بن نُعَيْم العَدَوِيُّ عن قَبِيصَةَ بن مخَارِقٍ الهلالي.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله رجال "الصحيح "؛ وقد أخرجه مسلم
وغيره، كما في "الإرواء" (868) .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2580
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2578
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2580
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت قبیصہ بن مخارق ؓ سے منقول ہے، انھوں نے کہا: میں نے کوئی تاوان اپنے ذمے لے لیا، پھر میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے اس کی (ادائیگی میں تعاون کی) بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے جائز ہے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے کسی قوم میں (صلح کروانے کے لیے) کوئی تاوان اپنے ذمے لے لیا۔ وہ اس سلسلے میں لوگوں سے مدد مانگ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ تاوان اتار دے اور پھر مانگنے سے رک جائے۔“
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید میں بھی اس جیسے لوگوں کو زکاۃ کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے: ﴿وَالْغَارِمِينَ﴾(التوبة: ۹ : ۶۰) اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کی لڑائی ختم کرنے کے لیے متنازعہ رقم اپنے ذمے لے لیتا ہے مگر اتنی وسعت نہیں کہ خود ادا کر سکے۔ وہ زکاۃ کا مال لے کر تاوان ادا کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک قرض اپنے ذمہ لے لیا، تو میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس سلسلہ میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ”مانگنا صرف تین لوگوں کے لیے جائز ہے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے قوم کے کسی شخص کے قرض کی ضمانت لے لی ہو (پھر وہ ادا نہ کر سکے)، تو وہ دوسرے سے مانگے یہاں تک کہ اسے ادا کر دے، پھر رک جائے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Qubaisah bin Mukhariq said: “I undertook a financial responsibility) Then I came to the Prophet (ﷺ) and asked him (for help) concerning that. He said: ‘Asking (for money) is not permissible except for three: A man who undertakes a financial responsibility between people; he may ask for help with that until the matter is settled, then he should refrain (from asking).” (Sahih)