Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Asking From The Righteous)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2587.
ابن فراسی سے روایت ہے کہ میرے والد حضرت فراسی ؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں کسی سے کچھ مانگ لیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔ اور اگر تجھے مجبوراً مانگنا پڑے تو نیک لوگوں سے مانگ۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد ضعيف. قال في "التقريب ":
" ابن الفِراسي عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وقيل: عن أبيه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: لا يعرف
اسمه ".
وأشار في "التهذيب " إلى أنه لم يرو عنه غير مسلم بن مخشي.
ومسلم هذا أشار إلى جهالته الذهبي بقوله:
" ما حدث عنه غير بكر بن سوادة ".
والحديث أخرجه النسائي (1/362) ، وأحمد (4/334) بسند المصنف ومتنه.
وأخرجه البيهقي (4/197) من طريق أخرى عن الليث، ومن طريق عمرو بن
الحارث عن بكر... به.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2588
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2586
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2588
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
ابن فراسی سے روایت ہے کہ میرے والد حضرت فراسی ؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں کسی سے کچھ مانگ لیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔ اور اگر تجھے مجبوراً مانگنا پڑے تو نیک لوگوں سے مانگ۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
فراسی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! میں مانگوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، اور اگر تمہیں مانگنا ضروری ہو تو نیکو کاروں سے مانگو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn Al Firasi that Al-Firasi said to the Messenger of Allah (ﷺ) “Shall I ask people (for help), Messenger of Allah (ﷺ)?” He said: “No, but if you have no alternative but to ask, then ask the righteous.” (Da’if)