Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: To Refrain From Asking)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2589.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے ایک شخص اپنی رسی پکڑے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے (اور اسے بیچ کر گزارا کرے) اس بات سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نواز رکھا ہے اور اس سے جا کر مانگے، پھر وہ اسے دے یا نہ دے۔“
تشریح:
”اپنے فضل“ قرآن وحدیث میں عموماً فضل سے مراد دنیوی رزق ہوتا ہے اور رحمت سے مراد اخروی ثواب۔ کسی آدمی سے دنیوی چیز ہی مانگی جا سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2590
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2588
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2590
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے ایک شخص اپنی رسی پکڑے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے (اور اسے بیچ کر گزارا کرے) اس بات سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نواز رکھا ہے اور اس سے جا کر مانگے، پھر وہ اسے دے یا نہ دے۔“
حدیث حاشیہ:
”اپنے فضل“ قرآن وحدیث میں عموماً فضل سے مراد دنیوی رزق ہوتا ہے اور رحمت سے مراد اخروی ثواب۔ کسی آدمی سے دنیوی چیز ہی مانگی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک شخص کا اپنی رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر پیٹھ پر لادنا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کے پاس جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل (مال) سے نوازا ہو، وہ اس سے مانگے، تو وہ اسے دے یا نہ دے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “By the One in Whose hand is my soul, if one of you were to take a rope and gather firewood on his back, that would be better for him than coming to a man to whom Allah, the Mighty and Sublime, has given of His bounty and asking him (for help), which he may or may not give.(Sahih)