Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Virtue Of The One Who Does Not Ask The People For Anything)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2591.
حضرت قبیصہ بن مخارق ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ”مانگنا صرف تین آدمیوں کے لیے جائز ہے: ایک وہ شخص جس کے مال پر کوئی ناگہانی آفت آگئی تو وہ مانگ سکتا ہے حتیٰ کہ گزارا ہو سکے، پھر وہ مانگنے سے باز آجائے۔ اور ایک وہ شخص جس نے کوئی تاوان اپنے ذمے لے لیا، وہ مانگ سکتا ہے حتیٰ کہ وہ تاوان ادا کرے، پھر وہ مانگنے سے باز آجائے۔ اور ایک وہ شخص جس کی قوم کے تین سمجھ دار (معزز) اشخاص اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائیں کہ فلاں شخص (کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ اس) کے لیے مانگنا حلال ہوگیا ہے۔ تو وہ مانگ سکتا ہے حتیٰ کہ مناسب گزارا کر سکے، پھر وہ مانگنے سے باز آجائے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2592
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2590
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2592
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت قبیصہ بن مخارق ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ”مانگنا صرف تین آدمیوں کے لیے جائز ہے: ایک وہ شخص جس کے مال پر کوئی ناگہانی آفت آگئی تو وہ مانگ سکتا ہے حتیٰ کہ گزارا ہو سکے، پھر وہ مانگنے سے باز آجائے۔ اور ایک وہ شخص جس نے کوئی تاوان اپنے ذمے لے لیا، وہ مانگ سکتا ہے حتیٰ کہ وہ تاوان ادا کرے، پھر وہ مانگنے سے باز آجائے۔ اور ایک وہ شخص جس کی قوم کے تین سمجھ دار (معزز) اشخاص اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائیں کہ فلاں شخص (کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ اس) کے لیے مانگنا حلال ہوگیا ہے۔ تو وہ مانگ سکتا ہے حتیٰ کہ مناسب گزارا کر سکے، پھر وہ مانگنے سے باز آجائے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے۔“
حدیث حاشیہ:
دیکھیے حدیث: ۲۵۸۰، ۲۵۸۱۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: تین شخصوں کے علاوہ کسی اور کے لیے سوال کرنا درست نہیں ہے: ایک وہ شخص جس کا مال کسی آفت کا شکار ہو گیا ہو تو وہ مانگ سکتا ہے یہاں تک کہ وہ گزارے کا کوئی ایسا ذریعہ حاصل کر لے جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہو سکیں ، پھر رک جائے، (دوسرا) وہ شخص جو کسی کا قرض اپنے ذمہ لے لے تو وہ قرض لوٹانے تک مانگ سکتا ہے، پھر (جب قرض ادا ہو جائے) تو مانگنے سے رک جائے۔ اور (تیسرا) وہ شخص جس کی قوم کے تین سمجھدار افراد اللہ کے نام کی قسم کھا کر اس کی محتاجی و تنگ دستی کی گواہی دیں کہ فلاں شخص کے لیے مانگنا جائز ہے تو وہ مانگ سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ گزارے کا کوئی ایسا ذریعہ نہ حاصل کر لے جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہو سکیں، ان (تین صورتوں) کے علاوہ مانگنا حرام ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Qabisah bin Mukhariq said: “I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘It is not right to ask (for help) except in three cases: A man whose wealth has been destroyed by some calamity, so he asks until he gets enough to keep him going, then he refrains from asking; a man who undertakes a financial responsibility, and asks for help until he pays off whatever needs to be paid; and a man concerning whom three wise men from his own people swear by Allah that it is permissible for so-and-so to ask for help, so he asks until he has enough to be independent of means, then he refrains from asking. Apart from that, (asking) is unlawful.”(Sahih)