Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: What Is Meant By Independence Of Means)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2592.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مانگے، حالانکہ اس کے پاس اتنا مال ہے جو اسے کفایت کر سکتا ہے، تو قیامت کے دن اس کا چہرہ نوچا ہوا ہوگا۔“ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! کتنا مال ایک شخص کو کفایت کر سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”پچاس درہم یا اس (کے برابر) مالیت کا سونا۔“ یحییٰ کہتے ہیں کہ سفیان ثوری نے کہا، میں نے زبید کو سنا وہ اسے محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے بیان کر رہے تھے۔
تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد و متابعات کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام احمد: ۶/ ۱۹۴، ۱۹۷ والصحیحة للألباني: ۱/ ۸۹۹، رقم الحدیث: ۴۹۹) (2) ”پچاس درہم۔“ یہ تقریباً ۵۲۵۰ روپے کی مالیت کے برابر ہیں، لہٰذا جس شخص کی ملکیت میں اتنا مال ہو اس کے لیے لوگوں سے سوال کرنا درست نہیں۔ بعض روایات میں چالیس درہم کا ذکر ہے، یہ حالات کے مطابق ہے۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 818 :
أخرجه أبو داود ( 1626 ) و النسائي ( 1 / 363 ) و الترمذي ( 1 / 126 )
و الدارمي ( 1 / 386 ) و ابن ماجه ( 1840 ) و الطحاوي ( 1 / 306 ) و الحاكم
( 407 ) و أحمد ( 1 / 388 ، 441 ) و ابن عدي ( 69 / 1 ، 73 / 2 ) من طريق حكيم
بن جبير عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد عن أبيه عن عبد الله بن مسعود قال :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
و السياق لابن ماجه و زاد هو و غيره :
" فقال رجل لسفيان : إن شعبة لا يحدث عن حكيم بن جبير ، فقال سفيان : قد حدثناه
زبيد عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد " .
قلت : حكيم بن جبير ضعيف ، لكن متابعة زبيد و هو ابن الحارث الكوفي تقوي الحديث
فإنه ثقة ثبت ، و كذلك سائر الرواة ثقات ، فالإسناد صحيح من طريق زبيد .
قال الترمذي " حديث حسن " .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2593
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2591
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2593
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مانگے، حالانکہ اس کے پاس اتنا مال ہے جو اسے کفایت کر سکتا ہے، تو قیامت کے دن اس کا چہرہ نوچا ہوا ہوگا۔“ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! کتنا مال ایک شخص کو کفایت کر سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”پچاس درہم یا اس (کے برابر) مالیت کا سونا۔“ یحییٰ کہتے ہیں کہ سفیان ثوری نے کہا، میں نے زبید کو سنا وہ اسے محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے بیان کر رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد و متابعات کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام احمد: ۶/ ۱۹۴، ۱۹۷ والصحیحة للألباني: ۱/ ۸۹۹، رقم الحدیث: ۴۹۹) (2) ”پچاس درہم۔“ یہ تقریباً ۵۲۵۰ روپے کی مالیت کے برابر ہیں، لہٰذا جس شخص کی ملکیت میں اتنا مال ہو اس کے لیے لوگوں سے سوال کرنا درست نہیں۔ بعض روایات میں چالیس درہم کا ذکر ہے، یہ حالات کے مطابق ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو مانگے اور اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے مانگنے سے بے نیاز کرتی ہو، تو وہ قیامت کے دن اپنے چہرے پر خراشیں لے کر آئے گا“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کتنا مال ہو تو اسے غنی (مالدار) سمجھا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ” پچاس درہم ، یا اس کی قیمت کا سونا ہو۔“ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں: سفیان ثوری نے کہا کہ میں نے زبید سے بھی سنا ہے، وہ محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید کے واسطہ سے (یہ حدیث) بیان کر رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Abdullah bin Mas’ud said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever asks when he has enough to make him independent of means will have lacerations on his face on the Day of Resurrection.’ It was said: ‘Messenger of Allah (ﷺ), what would make him independent of means?’ He said: ‘Fifty Dirhams or its equivalent of gold.” (Da’if)