Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Demanding When Asking)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2593.
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اصرار کے ساتھ (چمٹ کر) نہ مانگا کرو۔ تم میں سے جو شخص بھی مجھ سے کچھ مانگے گا جبکہ میں اسے دینا پسند نہ کروں (اور وہ مجھے تنگ کر کے کچھ مال لے جائے) تو اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی جو میں اسے دوں گا۔“
تشریح:
اصرار، یعنی چمٹ کر مانگنا یہ ہے کہ سائل مسئول کا پیچھا اس وقت تک نہ چھوڑے جب تک وہ اس سے مطلوبہ چیز حاصل نہ کر لے۔ جس شخص کے لیے مانگنا جائز ہے، اصرار اس کے لیے بھی منع ہے۔ ”میں اسے دینا پسند نہ کروں۔“ آپ تو سب سے بڑھ کر سخی تھے۔ آپ کا پسند نہ کرنا دلیل ہے کہ وہ مستحق نہیں ہے، لہٰذا وہ کچھ لے بھی جائے (اصرار کر کے) تو منجانب اللہ اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ غیر مستحق کبھی آسودہ نہیں ہوتا وہ ہمیشہ فقیر ہی رہتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2594
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2592
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2594
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اصرار کے ساتھ (چمٹ کر) نہ مانگا کرو۔ تم میں سے جو شخص بھی مجھ سے کچھ مانگے گا جبکہ میں اسے دینا پسند نہ کروں (اور وہ مجھے تنگ کر کے کچھ مال لے جائے) تو اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی جو میں اسے دوں گا۔“
حدیث حاشیہ:
اصرار، یعنی چمٹ کر مانگنا یہ ہے کہ سائل مسئول کا پیچھا اس وقت تک نہ چھوڑے جب تک وہ اس سے مطلوبہ چیز حاصل نہ کر لے۔ جس شخص کے لیے مانگنا جائز ہے، اصرار اس کے لیے بھی منع ہے۔ ”میں اسے دینا پسند نہ کروں۔“ آپ تو سب سے بڑھ کر سخی تھے۔ آپ کا پسند نہ کرنا دلیل ہے کہ وہ مستحق نہیں ہے، لہٰذا وہ کچھ لے بھی جائے (اصرار کر کے) تو منجانب اللہ اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ غیر مستحق کبھی آسودہ نہیں ہوتا وہ ہمیشہ فقیر ہی رہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاویہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چمٹ کر مت مانگو، اور تم میں سے کوئی مجھ سے کوئی چیز اس لیے نہ مانگے کہ میں اسے جو دوں اس میں اسے برکت دی جائے، اور حال یہ ہو کہ میں اسے نہ دینا چاہوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Mu'awiyah that the Messenger of Allah said: "Do not be demanding when asking. If one of you asks me for anything and I give it reluctantly, there will be no blessing in it.