باب: جسے اللہ تعالیٰ مانگے بغیر کوئی مال عطا فرمائے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: One To Whom Allah, The Mighty And Sublime, Gives Wealth Without Him Asking For It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2604.
حضرت عبداللہ بن ساعدی مالکی سے منقول ہے کہ مجھے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے صدقہ وزکاۃ جمع کرنے پر مقرر فرمایا۔ جب میں اس ذمے داری سے فارغ ہوا اور میں نے (جمع شدہ) مال ان کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے مجھے میری خدمت کا معاوضہ دینے کا حکم جاری فرمایا۔ میں نے کہا: میں نے یہ کام اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا ہے۔ اس کا معاوضہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی دے گا۔ آپ نے فرمایا: جو میں تمھیں دے رہا ہوں، لے لو۔ میں نے بھی رسول اللہﷺ کے دور مبارک میں (ایسی ہی) خدمت سرانجام دی تھی اور میں نے بھی آپ سے تیری طرح ہی کہا تھا تو مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جب تجھے کوئی چیز تیرے مانگے بغیر ملے تو (اسے لے لے اور) کھا۔ اور (چاہے تو) صدقہ کر دے۔“
تشریح:
ہر سرکاری کارندہ اس پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ وہ سرکاری کام بلا معاوضہ کر سکے کیونکہ معاشی مجبوریاں ہوتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ہر سرکاری کارندے کو معاوضہ دے اور سرکاری کارندہ اسے وصول کرے کیونکہ اگر بعض وصول کریں، بعض نہ کریں تو وصول کرنے والے شرمندگی ہی محسوس کریں گے۔ ہو سکتا ہے وہ احساس کمتری کا شکار ہو جائیں۔ وصول نہ کرنے کی صورت میں اظہار ہوگا جس سے ذہن میں تکبر و فخر پیدا ہو سکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه ابن
حبان من طريق أخرى؛ وزاد: أن عُمَالة السَّعْدِيِّ كانت ألفَ دينارٍ) .
إسناده: حدثنا أبو الوليد الطيالسي: ثنا الليث عن بُكَيْرِ بن عبد الله بن
الأشَجِّ عن بُسْرِ بن سَعِيد عن ابن الساعدي.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه كما يأتي.
وابن الساعدي- ويقال: السعدي: اسمه عبد الله، صحابي.
والحديث أخرجه مسلم (3/98) من طريق أخرى عن الليث... به.
وأخرجه البخاري (13/128- 130) ، وأحمد (1/17 و 40) من طريق
السائب بن يزيد ابن أخت نمر أن حُوَيْطِبَ بن عبد العُزَّى أخبره أن عبد الله بن
السعدي... به نحوه أتم منه؛ ولم يقع في "المسند" ذكر لحويطب. وهو رواية مسلم
من هذه الطريق.
والحديث أخرجه غير هؤلاء، ممن ذكرتهم في "الإرواء" (862) ، ومنهم ابن
حبان. والزيادة التي ذكرناها له فيما سبق؛ إسنادها صحيح.
الصحيحة ( 2209 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2605
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2603
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2605
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن ساعدی مالکی سے منقول ہے کہ مجھے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے صدقہ وزکاۃ جمع کرنے پر مقرر فرمایا۔ جب میں اس ذمے داری سے فارغ ہوا اور میں نے (جمع شدہ) مال ان کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے مجھے میری خدمت کا معاوضہ دینے کا حکم جاری فرمایا۔ میں نے کہا: میں نے یہ کام اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا ہے۔ اس کا معاوضہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی دے گا۔ آپ نے فرمایا: جو میں تمھیں دے رہا ہوں، لے لو۔ میں نے بھی رسول اللہﷺ کے دور مبارک میں (ایسی ہی) خدمت سرانجام دی تھی اور میں نے بھی آپ سے تیری طرح ہی کہا تھا تو مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جب تجھے کوئی چیز تیرے مانگے بغیر ملے تو (اسے لے لے اور) کھا۔ اور (چاہے تو) صدقہ کر دے۔“
حدیث حاشیہ:
ہر سرکاری کارندہ اس پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ وہ سرکاری کام بلا معاوضہ کر سکے کیونکہ معاشی مجبوریاں ہوتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ہر سرکاری کارندے کو معاوضہ دے اور سرکاری کارندہ اسے وصول کرے کیونکہ اگر بعض وصول کریں، بعض نہ کریں تو وصول کرنے والے شرمندگی ہی محسوس کریں گے۔ ہو سکتا ہے وہ احساس کمتری کا شکار ہو جائیں۔ وصول نہ کرنے کی صورت میں اظہار ہوگا جس سے ذہن میں تکبر و فخر پیدا ہو سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن ساعدی مالکی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب ؓ نے مجھے صدقہ پر عامل بنایا، جب میں اس سے فارغ ہوا اور اسے ان کے حوالے کر دیا، تو انہوں نے اس کام کی مجھے اجرت دینے کا حکم دیا، میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ عزوجل کے لیے کیا ہے، اور میرا اجر اللہ ہی کے ذمہ ہے، تو انہوں نے کہا: میں تمہیں جو دیتا ہوں وہ لے لو، کیونکہ میں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک کام کیا تھا، اور میں نے بھی آپ سے ویسے ہی کہا تھا جو تم نے کہا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”جب تمہیں کوئی چیز بغیر مانگے ملے تو (اسے) کھاؤ، اور (اس میں سے) صدقہ کرو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn As Sa’idi Al-Maliki said: “Umar bin Al Khattab (RA), appointed me in charge of the Sadaqah. When I finished collecting it and handed it over to him, he ordered that I be given some payment. I said to him: ‘I only did for the sake of Allah, the Mighty and Sublime, and my reward will be with Allah, the Mighty and Sublime.’ He said: ‘Take what I have given you; I did the same task during the time of the Messenger of Allah (ﷺ) and I said what you have said, but the Messenger of Allah (ﷺ) said to me: ‘If you are given something without asking for it, then keep (some) and give (some) in charity.” (Sahih)