باب: جسے اللہ تعالیٰ مانگے بغیر کوئی مال عطا فرمائے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: One To Whom Allah, The Mighty And Sublime, Gives Wealth Without Him Asking For It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2606.
حضرت عبداللہ بن سعدی نے بتایا کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے دور خلافت میں ان کے پاس حاضر ہوا تو حضرت عمر ؓ نے مجھ سے فرمایا: کیا یہ بات درست ہے کہ تم سرکاری کام کرتے ہو اور جب تمھیں حق الخدمت دیا جاتا ہے تو تم واپس کر دیتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عمر ؓ فرمانے لگے: تمھارا مقصد کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: میرے پاس بہت سے گھوڑے اور غلام ہیں۔ میں مال دار ہوں۔ (میرے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا بہت کچھ ہے۔) میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایسے نہ کیا کرو۔ میں نے بھی (رسول اللہﷺ کے دور مبارک میں) ایسا ہی کرنا چاہا تھا جس طرح تو نے کرنا چاہا ہے۔ رسول اللہﷺ مجھے کوئی عطیہ وغیرہ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ کسی ایسے شخص کو دے دیجئے جسے اس کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”لے لیا کر، پھر جی چاہے تو رکھ لے، نہیں تو صدقہ کر دیا کر۔ اس قسم کا مال جو تیرے پاس بغیر تیری طمع اور خواہش کے آئے، وہ لے لیا کر اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگا۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه ابن
حبان من طريق أخرى؛ وزاد: أن عُمَالة السَّعْدِيِّ كانت ألفَ دينارٍ) .
إسناده: حدثنا أبو الوليد الطيالسي: ثنا الليث عن بُكَيْرِ بن عبد الله بن
الأشَجِّ عن بُسْرِ بن سَعِيد عن ابن الساعدي.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه كما يأتي.
وابن الساعدي- ويقال: السعدي: اسمه عبد الله، صحابي.
والحديث أخرجه مسلم (3/98) من طريق أخرى عن الليث... به.
وأخرجه البخاري (13/128- 130) ، وأحمد (1/17 و 40) من طريق
السائب بن يزيد ابن أخت نمر أن حُوَيْطِبَ بن عبد العُزَّى أخبره أن عبد الله بن
السعدي... به نحوه أتم منه؛ ولم يقع في "المسند" ذكر لحويطب. وهو رواية مسلم
من هذه الطريق.
والحديث أخرجه غير هؤلاء، ممن ذكرتهم في "الإرواء" (862) ، ومنهم ابن
حبان. والزيادة التي ذكرناها له فيما سبق؛ إسنادها صحيح.
الصحيحة ( 2209 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2607
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2605
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2607
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن سعدی نے بتایا کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے دور خلافت میں ان کے پاس حاضر ہوا تو حضرت عمر ؓ نے مجھ سے فرمایا: کیا یہ بات درست ہے کہ تم سرکاری کام کرتے ہو اور جب تمھیں حق الخدمت دیا جاتا ہے تو تم واپس کر دیتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عمر ؓ فرمانے لگے: تمھارا مقصد کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: میرے پاس بہت سے گھوڑے اور غلام ہیں۔ میں مال دار ہوں۔ (میرے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا بہت کچھ ہے۔) میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایسے نہ کیا کرو۔ میں نے بھی (رسول اللہﷺ کے دور مبارک میں) ایسا ہی کرنا چاہا تھا جس طرح تو نے کرنا چاہا ہے۔ رسول اللہﷺ مجھے کوئی عطیہ وغیرہ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ کسی ایسے شخص کو دے دیجئے جسے اس کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”لے لیا کر، پھر جی چاہے تو رکھ لے، نہیں تو صدقہ کر دیا کر۔ اس قسم کا مال جو تیرے پاس بغیر تیری طمع اور خواہش کے آئے، وہ لے لیا کر اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن السعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ عمر بن خطاب ؓ کے پاس ان کی خلافت کے زمانہ میں آئے، تو عمر ؓ نے ان سے کہا: کیا مجھے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ تم عوامی کاموں میں سے کسی کام کے ذمہ دار ہوتے ہو اور جب تمہیں مزدوری دی جاتی ہے تو قبول نہیں کرتے لوٹا دیتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں (صحیح ہے) اس پر عمر ؓ نے کہا: اس سے تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: میرے پاس گھوڑے، غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں (مجھے کسی چیز کی محتاجی نہیں ہے) میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو۔ تو عمر ؓ نے ان سے کہا: ایسا نہ کرو کیونکہ میں بھی یہی چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو (لیکن اس کے باوجود) رسول اللہ ﷺ مجھے عطیہ (بخشش) دیتے تھے تو میں عرض کرتا تھا: اسے میرے بجائے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، تو آپ فرماتے: ”اسے لے کر اپنے مال میں شامل کر لو، یا صدقہ کر دو، سنو! تمہارے پاس اس طرح کا جو بھی مال آئے جس کا نہ تم حرص رکھتے ہو اور نہ تم اس کے طلب گار ہو تو وہ مال لے لو، اور جو اس طرح نہ آئے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abdullah bin As-Sa'di narrated that he came to ‘Umar bin Al-Khattab (RA) during his Caliphate and ‘Umar said to him: “I heard that you do some jobs for the people but when payment is given to you, you refuse it.” I said: “(that is so).” ‘Umar (RA), said: “Why do you do that?” I said: “I have horses and slaves and am well off, and I wanted my work to be an act of charity toward the Muslims.” ‘Umar said to him: “Do not do that. I used to want the same thing as you. The Messenger of Allah (ﷺ) used to give me payment and I would say, ‘Give it to someone who is more in need of it than I am.’ But the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Take it and keep it or give it in charity. Whatever comes to you of this wealth when you are not hoping for it and not asking for it, take it, and whatever does not, then do not wish for it.” (Sahih)