باب: جسے اللہ تعالیٰ مانگے بغیر کوئی مال عطا فرمائے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: One To Whom Allah, The Mighty And Sublime, Gives Wealth Without Him Asking For It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2607.
حضرت عبداللہ بن سعدی نے خبر دی کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے دور حکومت میں آپ کے پاس آیا تو آپ فرمانے لگے: مجھے پتا چلا ہے کہ تو لوگوں کی خدمات سر انجام دیتا ہے لیکن جب تجھے تنخواہ دی جاتی ہے تو تو اسے ناپسند کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں! (ایسے ہی ہے)۔ تو انھوں نے فرمایا: تمہارا مقصد کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: میرے پاس بہت سے گھوڑے اور غلام ہیں اور میں مال دار ہوں (اچھا گزارا کر رہا ہوں)۔ میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ایسے نہ کر۔ میں نے بھی ایسا ہی کرنا چاہا تھا جس طرح تو نے کرنا چاہا ہے۔ نبیﷺ مجھے تنخواہ وغیرہ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ کسی زیادہ حاجت مند کو دے دیجئے، حتیٰ کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے کچھ مال دیا۔ میں نے (حسب عادت) کہہ دیا کہ یہ مجھ سے زیادہ محتاج کو دے دیجئے۔ تو نبیﷺ فرمانے لگے: ”لے لے، پھر رکھ یا صدقہ کر۔ اس قسم کا مال تیرے پاس آئے جبکہ تجھے نہ لالچ ہو اور نہ تو نے مانگا ہو تو وہ لے لیا کر اور جو خود بخود نہ ملے، اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگا۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه ابن
حبان من طريق أخرى؛ وزاد: أن عُمَالة السَّعْدِيِّ كانت ألفَ دينارٍ) .
إسناده: حدثنا أبو الوليد الطيالسي: ثنا الليث عن بُكَيْرِ بن عبد الله بن
الأشَجِّ عن بُسْرِ بن سَعِيد عن ابن الساعدي.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه كما يأتي.
وابن الساعدي- ويقال: السعدي: اسمه عبد الله، صحابي.
والحديث أخرجه مسلم (3/98) من طريق أخرى عن الليث... به.
وأخرجه البخاري (13/128- 130) ، وأحمد (1/17 و 40) من طريق
السائب بن يزيد ابن أخت نمر أن حُوَيْطِبَ بن عبد العُزَّى أخبره أن عبد الله بن
السعدي... به نحوه أتم منه؛ ولم يقع في "المسند" ذكر لحويطب. وهو رواية مسلم
من هذه الطريق.
والحديث أخرجه غير هؤلاء، ممن ذكرتهم في "الإرواء" (862) ، ومنهم ابن
حبان. والزيادة التي ذكرناها له فيما سبق؛ إسنادها صحيح.
الصحيحة ( 2209 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2608
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2606
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2608
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن سعدی نے خبر دی کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے دور حکومت میں آپ کے پاس آیا تو آپ فرمانے لگے: مجھے پتا چلا ہے کہ تو لوگوں کی خدمات سر انجام دیتا ہے لیکن جب تجھے تنخواہ دی جاتی ہے تو تو اسے ناپسند کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں! (ایسے ہی ہے)۔ تو انھوں نے فرمایا: تمہارا مقصد کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: میرے پاس بہت سے گھوڑے اور غلام ہیں اور میں مال دار ہوں (اچھا گزارا کر رہا ہوں)۔ میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ایسے نہ کر۔ میں نے بھی ایسا ہی کرنا چاہا تھا جس طرح تو نے کرنا چاہا ہے۔ نبیﷺ مجھے تنخواہ وغیرہ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ کسی زیادہ حاجت مند کو دے دیجئے، حتیٰ کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے کچھ مال دیا۔ میں نے (حسب عادت) کہہ دیا کہ یہ مجھ سے زیادہ محتاج کو دے دیجئے۔ تو نبیﷺ فرمانے لگے: ”لے لے، پھر رکھ یا صدقہ کر۔ اس قسم کا مال تیرے پاس آئے جبکہ تجھے نہ لالچ ہو اور نہ تو نے مانگا ہو تو وہ لے لیا کر اور جو خود بخود نہ ملے، اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن السعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ عمر بن خطاب ؓ کے زمانہ خلافت میں ان کے پاس آئے تو عمر ؓ نے کہا: کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم عوامی کاموں میں سے کسی کام کے والی ہوتے ہو تو جب تمہیں اجرت دی جاتی ہے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: کیوں نہیں (ایسا تو ہے) انہوں نے کہا: اس سے تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں، میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے، اس پر عمر ؓ نے کہا: ایسا نہ کرو، کیونکہ میں بھی وہی چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو۔ نبی اکرم ﷺ مجھے عطایا (بخشش) دیتے تھے، تو میں عرض کرتا تھا: آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھے کچھ مال دیا، میں نے کہا: آپ اسے اس شخص کو دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے لے کر اپنے مال میں شامل کر لو، نہیں تو صدقہ کر دو۔ (سنو!) اس مال میں سے جو بھی تمہیں بغیر کسی لالچ کے اور بغیر مانگے ملے اس کو لے لو، اور جو نہ ملے اس کے پیچھے نہ پڑو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abdullah bin As-Sa'di narrated that he came to ‘Umar bin Al-Khattab (RA) during his Caliphate and ‘Umar said to him: “I heard that you do some jobs for the people but when payment is given to you, you do not like it.” I said: “Yes (that is so).” He said: “Why do you do that?” I said: “I have horses and slaves and am well off, and I wanted my work to be an act of charity toward the Muslims.” ‘Umar said to him: “Do not do that. I used to want the same thing as you. The Messenger of Allah (ﷺ) used to give me payment and I would say, ‘Give it to someone who is more in need of it than I am’ until, on one occasion, the Prophet (ﷺ) gave me payment and I said: ‘Give it to someone who is more in need of it than I am.’ The Prophet (ﷺ) said: ‘Take it and keep it or give it in charity. Whatever comes to you of this wealth when you are not hoping for it and not asking for it, take it, and whatever does not, then do not wish for it.” (Sahih)