باب: جسے اللہ تعالیٰ مانگے بغیر کوئی مال عطا فرمائے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: One To Whom Allah, The Mighty And Sublime, Gives Wealth Without Him Asking For It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2608.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر ؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبیﷺ مجھے کوئی عطیہ عنایت فرماتے تو میں کہہ دیا کرتا تھا کہ یہ کسی ایسے شخص کو دے دیجئے جسے مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو، حتیٰ کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے کچھ مال دیا تو میں نے کہہ دیا: کسی ایسے شخص کو دے دیجئے جو مجھ سے زیادہ فقیر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”لے لے۔ اسے استعمال بھی کر اور صدقہ بھی کر۔ یہ مال اگر تیرے پاس خود بخود آئے، تجھے نہ تو اس کی طمع ہو اور نہ تو نے مانگا ہو تو اسے لے لیا کر اور جو اپنے آپ نہ ملے، اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگا۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2609
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2607
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2609
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر ؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبیﷺ مجھے کوئی عطیہ عنایت فرماتے تو میں کہہ دیا کرتا تھا کہ یہ کسی ایسے شخص کو دے دیجئے جسے مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو، حتیٰ کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے کچھ مال دیا تو میں نے کہہ دیا: کسی ایسے شخص کو دے دیجئے جو مجھ سے زیادہ فقیر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”لے لے۔ اسے استعمال بھی کر اور صدقہ بھی کر۔ یہ مال اگر تیرے پاس خود بخود آئے، تجھے نہ تو اس کی طمع ہو اور نہ تو نے مانگا ہو تو اسے لے لیا کر اور جو اپنے آپ نہ ملے، اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر ؓ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ مجھے عطیہ دیتے تو میں کہتا: آپ اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھے کچھ مال دیا تو میں نے آپ سے عرض کیا: اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا حاجت مند ہو، تو آپ نے فرمایا: ”تم لے لو، اور اس کے مالک بن جاؤ، اور اسے صدقہ کر دو، اور جو مال تمہیں اس طرح ملے کہ تم نے اسے مانگا نہ ہو اور اس کی لالچ کی ہو تو اسے قبول کر لو، اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abdullah bin ‘Umar said: “I heard ‘Umar, may Allah be pleased with him, say: ‘The Prophet (ﷺ) used to give me payment and I would say: Give it to someone who is more in need of it than I am, until one day he gave me some money and I said to him: Give it to Someone who is more in need of it than I am. He, said: Take it and keep it or give it in charity. Whatever comes to you of this wealth when you are not hoping for it and not asking for it, take it, and whatever does not, then do not wish for it.” (Sahih)