Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Appointing The Family Of The Prophet To Collect Sadaqah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2609.
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب ؓ نے بتایا کہ میرے والد ربیعہ بن حارث نے مجھے اور حضرت فضل بن عباس بن عبدالمطلب ؓ سے کہا کہ تم رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے عرض کرو کہ ہمیں بھی صدقات اکٹھے کرنے کی خدمت پر مقرر فرمائیں۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ رسول اللہﷺ تم میں سے کسی کو صدقات پر مقرر نہیں فرمائیں گے۔ میں اور فضل بن عباس پھر بھی چل پڑے اور رسول اللہﷺ کے پاس پہنچ کر عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ زکاۃ و صدقات لوگوں کا میل کچیل ہیں، اس لیے یہ حضرت محمد(ﷺ) اور آل محمدﷺ کے لیے حلال نہیں۔“
تشریح:
(1) آل نبیﷺ صدقات جمع کرنے کی خدمت تو سر انجام دے سکتے ہیں مگر اس کام کی اجرت نہیں لے سکتے کیونکہ اجرت بھی تو زکاۃ و صدقات ہی کا حصہ ہے۔ حضرت عبدالمطلب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد چونکہ اجرت ہی تھا، لہٰذا آپ نے انھیں مقرر نہ فرمایا۔ (2) صدقات جمع کرنے کی اجرت حقیقتاً صدقہ نہیں ہے، اس لیے اغنیاء بھی یہ خدمت سر انجام دے کر اجرت لے سکتے ہیں مگر آل محمدﷺ کی رفعت شان اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ایسی چیز بھی نہ لیں جس میں صدقے کا شبہ بھی ہو اور اجرت صدقات میں صدقے کا شبہ تو ہے کیونکہ وہ صدقات کا حصہ ہے۔ (3) رفعت شان کے علاوہ آل محمدﷺ کے لیے صدقات کی حرمت کا سبب یہ بھی ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ دعوائے نبوت کا مقصد اپنے خاندان کے لیے مال جمع کرنا ہے۔ نعوذ باللہ (4) زکاۃ و صدقات چونکہ مال کو پاک کرتے ہیں، جس طرح پانی جسم کو پاک کرتا ہے، لہذا زکاۃ وصدقات کی حیثیت اس پانی کی سی ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو دھو کر صاف کیا گیا ہو، اس لیے اسے ”لوگوں کا میل کچیل“ کہا گیا۔ اختیاری حالت میں ماء مستعمل کو لینا کوئی پسند نہیں کرتا، اس لیے زکاۃ وصدقات بھی مجبور ومضطر لوگوں ہی کے لیے جائز ہیں۔ (5) فرض صدقات تو نبیﷺ پر اور آپ کی آل پر قطعاً حرام ہیں، البتہ نفل صدقات کے بارے میں جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ وہ آل محمد کے لیے جائز ہیں، البتہ رسول اللہﷺ کی مقدس ہستی کے لیے نفل صدقات بھی حرام ہیں کہ آپ کی شان انتہائی بلند ہے۔ (6) آل نبیﷺ سے مراد امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک صرف بنو ہاشم ہیں اور امام شافعی وغیرہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں خاندان مراد لیے ہیں۔ بنو ہاشم سے مراد حضرت علی، عقیل، جعفر، عباس اور حارث رضی اللہ عنہم کی نسل ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2610
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2608
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2610
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب ؓ نے بتایا کہ میرے والد ربیعہ بن حارث نے مجھے اور حضرت فضل بن عباس بن عبدالمطلب ؓ سے کہا کہ تم رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے عرض کرو کہ ہمیں بھی صدقات اکٹھے کرنے کی خدمت پر مقرر فرمائیں۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ رسول اللہﷺ تم میں سے کسی کو صدقات پر مقرر نہیں فرمائیں گے۔ میں اور فضل بن عباس پھر بھی چل پڑے اور رسول اللہﷺ کے پاس پہنچ کر عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ زکاۃ و صدقات لوگوں کا میل کچیل ہیں، اس لیے یہ حضرت محمد(ﷺ) اور آل محمدﷺ کے لیے حلال نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) آل نبیﷺ صدقات جمع کرنے کی خدمت تو سر انجام دے سکتے ہیں مگر اس کام کی اجرت نہیں لے سکتے کیونکہ اجرت بھی تو زکاۃ و صدقات ہی کا حصہ ہے۔ حضرت عبدالمطلب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد چونکہ اجرت ہی تھا، لہٰذا آپ نے انھیں مقرر نہ فرمایا۔ (2) صدقات جمع کرنے کی اجرت حقیقتاً صدقہ نہیں ہے، اس لیے اغنیاء بھی یہ خدمت سر انجام دے کر اجرت لے سکتے ہیں مگر آل محمدﷺ کی رفعت شان اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ایسی چیز بھی نہ لیں جس میں صدقے کا شبہ بھی ہو اور اجرت صدقات میں صدقے کا شبہ تو ہے کیونکہ وہ صدقات کا حصہ ہے۔ (3) رفعت شان کے علاوہ آل محمدﷺ کے لیے صدقات کی حرمت کا سبب یہ بھی ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ دعوائے نبوت کا مقصد اپنے خاندان کے لیے مال جمع کرنا ہے۔ نعوذ باللہ (4) زکاۃ و صدقات چونکہ مال کو پاک کرتے ہیں، جس طرح پانی جسم کو پاک کرتا ہے، لہذا زکاۃ وصدقات کی حیثیت اس پانی کی سی ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو دھو کر صاف کیا گیا ہو، اس لیے اسے ”لوگوں کا میل کچیل“ کہا گیا۔ اختیاری حالت میں ماء مستعمل کو لینا کوئی پسند نہیں کرتا، اس لیے زکاۃ وصدقات بھی مجبور ومضطر لوگوں ہی کے لیے جائز ہیں۔ (5) فرض صدقات تو نبیﷺ پر اور آپ کی آل پر قطعاً حرام ہیں، البتہ نفل صدقات کے بارے میں جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ وہ آل محمد کے لیے جائز ہیں، البتہ رسول اللہﷺ کی مقدس ہستی کے لیے نفل صدقات بھی حرام ہیں کہ آپ کی شان انتہائی بلند ہے۔ (6) آل نبیﷺ سے مراد امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک صرف بنو ہاشم ہیں اور امام شافعی وغیرہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں خاندان مراد لیے ہیں۔ بنو ہاشم سے مراد حضرت علی، عقیل، جعفر، عباس اور حارث رضی اللہ عنہم کی نسل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالمطلب بن ربیعہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث نے عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس ؓ سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ، اور آپ سے کہو کہ اللہ کے رسول! آپ ہمیں صدقہ پر عامل بنا دیں، ہم اسی حال میں تھے کہ علی ؓ گئے تو انہوں نے ان دونوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تم دونوں میں سے کسی کو بھی صدقہ پر عامل مقرر نہیں فرمائیں گے۔ عبدالمطلب کہتے ہیں: (ان کے ایسا کہنے کے باوجود بھی) میں اور فضل دونوں چلے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے، تو آپ نے ہم سے فرمایا: ”یہ صدقہ جو ہے یہ لوگوں کا میل ہے، یہ محمد ﷺ کے لیے اور محمد ﷺ کے آل کے لیے جائز نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Rabi’ah bin Al-Harith said to ‘Abdul-Muttalib bin Rabi’ah bin Al-Harith and Al-Fadal bin ‘Abbas bin ‘Abdul-Muttalib: “Go to the Messenger of Allah (ﷺ) and say to him: ‘Messenger of Allah (ﷺ), appoint us to collect the Sadaqat!’ ‘Ali Ibn Abi Talib (RA) came along when we were like that, and he said to them: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) will not appoint any of you to collect the Sadaqah.” ‘Abdul-Muttalib said: “So I went with Al-Fadal until we came to the Messenger of Allah (ﷺ) and he said to us: ‘This Zakah is the dirt of the people, and it is not permissible for Muhammad or for the family of Muhammad.” (Sahih)