Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Charity Is Not Permissible For The Prophet)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2613.
حضرت بہز بن حکیم کے دادا بیان کرتے ہیں کہ جب نبیﷺ کے پاس کوئی چیز لائی جاتی تو آپ اس کے بارے میں پوچھتے کہ یہ تحفہ ہے یا صدقہ؟ اگر کہا جاتا: صدقہ ہے، تو آپ نہیں کھاتے تھے اور اگر کہا جاتا ہے: تحفہ ہے، تو آپ تناول فرما لیتے تھے۔
تشریح:
صدقات سے پرہیز میں آپ ہی تو اصل ہیں تاکہ کسی نابکاری کے لیے اعتراض کی گنجائش نہ رہے۔ آل نبی تو آپ کی فرع ہونے کی وجہ سے اس حکم میں داخل ہیں۔ ممکن ہے باب کا مقصد یہ ہو کہ نبیﷺ کے لیے نفل صدقات بھی حلال نہ تھے، البتہ ازواج مطہراتؓ کے لیے نفل صدقات حلال تھے جیسا کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2614
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2612
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2614
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت بہز بن حکیم کے دادا بیان کرتے ہیں کہ جب نبیﷺ کے پاس کوئی چیز لائی جاتی تو آپ اس کے بارے میں پوچھتے کہ یہ تحفہ ہے یا صدقہ؟ اگر کہا جاتا: صدقہ ہے، تو آپ نہیں کھاتے تھے اور اگر کہا جاتا ہے: تحفہ ہے، تو آپ تناول فرما لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
صدقات سے پرہیز میں آپ ہی تو اصل ہیں تاکہ کسی نابکاری کے لیے اعتراض کی گنجائش نہ رہے۔ آل نبی تو آپ کی فرع ہونے کی وجہ سے اس حکم میں داخل ہیں۔ ممکن ہے باب کا مقصد یہ ہو کہ نبیﷺ کے لیے نفل صدقات بھی حلال نہ تھے، البتہ ازواج مطہراتؓ کے لیے نفل صدقات حلال تھے جیسا کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بہز بن حکیم کے دادا (معاویہ بن حیدہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کے پاس (کھانے کی) کوئی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے: ”یہ ہدیہ ہے یا صدقہ؟“ اگر کہا جاتا کہ یہ صدقہ ہے تو آپ نہ کھاتے اور اگر کہا جاتا یہ ہدیہ ہے تو آپ (کھانے کے لیے) اپنا ہاتھ بڑھاتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Bahz bin Hakim narrated from his father that his grandfather said: “If something was brought to him, the Prophet (ﷺ), would ask whether it was a gift or charity. If it was said that it was charity, he would not eat, and if it was said that it was a gift, he would stretch forth his hand.” (Hasan)