Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Buying Something That One Has Given In Charity)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2615.
حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک گھوڑا اللہ تعالیٰ کے راستے (جہاد) میں کسی (مجاہد) کو دیا۔ اس نے گھوڑے (کی خاطر تواضع نہ کی اور اس) کو ضائع (کمزور) کر دیا۔ میرا ارادہ ہوا کہ اس سے دوبارہ خرید لوں۔ میرا خیال تھا وہ سستا ہی بیچ دے گا۔ میں نے اس بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”تو اسے مت خرید۔ چاہے وہ ایک درہم ہی کا تجھے دے کیونکہ جو شخص اپنے صدقے کو (کسی بھی صورت میں) واپس لیتا ہے، وہ اس کتے کی طرح ہے جو اپنے قے چاٹتا ہے۔“
تشریح:
صدقہ کرنے والے کو اپنا صدقہ قیمتاً بھی لینا منع ہے۔ ممکن ہے وہ شخص اس کا لحاظ کرتے ہوئے اسے قیمت میں رعایت کرے، البتہ کوئی دوسرا شخص کسی دوسرے کا صدقہ خرید سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے یہ صدقہ نہیں بلکہ خریدی ہوئی چیز ہے۔ گویا چیز کی حیثیت بدل جانے سے اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے، جیسے پچھلی حدیث میں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2616
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2614
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2616
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک گھوڑا اللہ تعالیٰ کے راستے (جہاد) میں کسی (مجاہد) کو دیا۔ اس نے گھوڑے (کی خاطر تواضع نہ کی اور اس) کو ضائع (کمزور) کر دیا۔ میرا ارادہ ہوا کہ اس سے دوبارہ خرید لوں۔ میرا خیال تھا وہ سستا ہی بیچ دے گا۔ میں نے اس بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”تو اسے مت خرید۔ چاہے وہ ایک درہم ہی کا تجھے دے کیونکہ جو شخص اپنے صدقے کو (کسی بھی صورت میں) واپس لیتا ہے، وہ اس کتے کی طرح ہے جو اپنے قے چاٹتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
صدقہ کرنے والے کو اپنا صدقہ قیمتاً بھی لینا منع ہے۔ ممکن ہے وہ شخص اس کا لحاظ کرتے ہوئے اسے قیمت میں رعایت کرے، البتہ کوئی دوسرا شخص کسی دوسرے کا صدقہ خرید سکتا ہے کیونکہ اس کے لیے یہ صدقہ نہیں بلکہ خریدی ہوئی چیز ہے۔ گویا چیز کی حیثیت بدل جانے سے اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے، جیسے پچھلی حدیث میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر ؓ کو کہتے سنا کہ میں نے (ایک آدمی کو) ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیا تو اسے اس شخص نے برباد کر دیا، تو میں نے سوچا کہ میں اسے خرید لوں، خیال تھا کہ وہ اسے سستا ہی بیچ دے گا، میں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے مت خریدو گرچہ وہ تمہیں ایک ہی درہم میں دیدے، کیونکہ صدقہ کر کے پھر اسے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے اسے چاٹتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Zaid bin Aslam that his father said: “I heard ‘Umar say: ‘I gave a horse to someone to ride in the cause of Allah, the Mighty and Sublime, and the one who kept it neglected it. I wanted to buy it back from him, and I thought that he would sell it at a cheap price. I asked the Messenger of Allah (ﷺ) about that and he said: Do not buy it, even if he gives it to you for a Dirham. The one who takes back his charity is like the dog that goes back to its Own vomit.’” (Sahih)