Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Buying Something That One Has Given In Charity)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2618.
حضرت سعید بن مسیب سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے (مکہ مکرمہ کے گورنر) حضرت عتاب بن اسید ؓ کو حکم دیا تھا کہ انگوروں کی فصل کا اندازہ لگا کر ان کی زکاۃ کشمش کی صورت میں ادا کی جائے جس طرح کھجوروں کی زکاۃ خشک کھجوروں (چھوہاروں) کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔
تشریح:
زکاۃ کی بحث تو پیچھے گزر چکی ہے کہ عشر وغیرہ اس صورت میں وصول کیا جائے گا جس صورت میں اس کا ذخیرہ کیا جا سکے مگر یہاں بحث طلب امر یہ ہے کہ اس حدیث کا باب سے کیا تعلق ہے، جبکہ اس میں صدقہ خریدنے کا کوئی ذکر نہیں؟ کہا جا سکتا ہے کہ جب کا شتکار نے انگور رکھ کر کشمش کی صورت میں عشر دیا تو گویا اس نے صدقے کے انگوروں کو کشمش سے خرید لیا۔ گویا اپنا صدقہ خریدنا جائز ہوگیا۔ اس صورت میں اوپر والی روایات میں اپنا صدقہ خریدنے سے روکنا تنزیہ اور احتیاط کے طور پر ہوگا۔ واللہ اعلم۔ مگر یہ نرالا استنباط ہی ہے۔ دینے والے نے تو صدقے ہی کے انگوروں کو خشک کر کے کشمش بنا کر دیا۔ اپنے مال سے بدلا نہیں ہے کہ اس پر بیچنے کے معنیٰ کسی بھی طرح صادق آسکیں۔ کشمش ہی سے صدقے کی ابتدا ہوئی۔ ویسے یہ روایت مرسل ہے۔ حضرت سعید بن مسیب تابعی ہیں۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے یہ روایت کس صحابی سے سنی ہے۔ اس سے روایت کی حیثیت کم ہو جاتی اور ضعیف قرار پاتی ہے، تاہم یہ مسئلہ دیگر صحیح روایات سے بھی ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۳/ ۲۵۹-۲۶۶)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2619
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2617
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2619
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت سعید بن مسیب سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے (مکہ مکرمہ کے گورنر) حضرت عتاب بن اسید ؓ کو حکم دیا تھا کہ انگوروں کی فصل کا اندازہ لگا کر ان کی زکاۃ کشمش کی صورت میں ادا کی جائے جس طرح کھجوروں کی زکاۃ خشک کھجوروں (چھوہاروں) کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
زکاۃ کی بحث تو پیچھے گزر چکی ہے کہ عشر وغیرہ اس صورت میں وصول کیا جائے گا جس صورت میں اس کا ذخیرہ کیا جا سکے مگر یہاں بحث طلب امر یہ ہے کہ اس حدیث کا باب سے کیا تعلق ہے، جبکہ اس میں صدقہ خریدنے کا کوئی ذکر نہیں؟ کہا جا سکتا ہے کہ جب کا شتکار نے انگور رکھ کر کشمش کی صورت میں عشر دیا تو گویا اس نے صدقے کے انگوروں کو کشمش سے خرید لیا۔ گویا اپنا صدقہ خریدنا جائز ہوگیا۔ اس صورت میں اوپر والی روایات میں اپنا صدقہ خریدنے سے روکنا تنزیہ اور احتیاط کے طور پر ہوگا۔ واللہ اعلم۔ مگر یہ نرالا استنباط ہی ہے۔ دینے والے نے تو صدقے ہی کے انگوروں کو خشک کر کے کشمش بنا کر دیا۔ اپنے مال سے بدلا نہیں ہے کہ اس پر بیچنے کے معنیٰ کسی بھی طرح صادق آسکیں۔ کشمش ہی سے صدقے کی ابتدا ہوئی۔ ویسے یہ روایت مرسل ہے۔ حضرت سعید بن مسیب تابعی ہیں۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے یہ روایت کس صحابی سے سنی ہے۔ اس سے روایت کی حیثیت کم ہو جاتی اور ضعیف قرار پاتی ہے، تاہم یہ مسئلہ دیگر صحیح روایات سے بھی ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۳/ ۲۵۹-۲۶۶)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
تابعی سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عتاب بن اسید کو (درخت پر لگے) انگور کا تخمینہ لگانے کا حکم دیا تاکہ اس کی زکاۃ کشمش سے ادا کی جا سکے، جیسے درخت پر لگی کھجوروں کی زکاۃ پکی کھجور سے ادا کی جاتی ہے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : بظاہر اس حدیث کا تعلق اس کے باب ”صدقہ خریدنے کا بیان“ سے نظر نہیں آتا، ممکن ہے کہ مؤلف کی مراد یہ ہو کہ ”جب درخت پر لگے پھل کا تخمینہ لگا کر مالک کے گھر میں موجود کھجور سے اس کی زکاۃ لے لی گئی تو گویا یہ بیع ہو گئی“ ، اور تب عمر رضی الله عنہ کے واقعہ میں ممانعت تنزیہ پہ محمول کی جائے گی، واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Saeed bin Al-Musayyab that the Messenger of Allah (ﷺ) told ‘Attab bin Usaid to estimate the (harvest of) grapes, and to pay Zakah in raisins, just as the Zakah on date palms is given in dried dates. (Da’if)