Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Obligation Of Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2619.
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ”یقینا اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔“ ایک آدمی کہنے لگا: ہر سال؟ آپ خاموش رہے، حتیٰ کہ اس نے تین دفعہ یہ سوال دہرایا۔ آپ نے فرمایا: ”اگر میں ”ہاں“ کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور اگر ہر سال واجب ہو جاتا تو تم اسے ادا نہ کر سکتے۔ جب تک میں تمھیں چھوڑے رہوں، تم بھی مجھے چھوڑے رہا کرو۔ تم سے پہلے کے لوگ اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے اور زیادہ سوالات کرنے کی وجہ ہی سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق اس کی پابندی کرو اور جب تمھیں کسی چیز سے روک دوں تو اسے چھوڑ دو۔“
تشریح:
(1) حج کی فرضیت تو اجماعی اور قطعی مسئلہ ہے، اختلاف ہے یہ کہ کب فرض ہوا۔ مشہور قول ۵ یا ۶ ہجری کا ہے مگر محقق بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۹ ہجری میں فرض ہوا، ورنہ آپ ۶ہجری میں عمرے کی بجائے حج کو جاتے۔ ۸ ہجری میں بھی فتح مکہ کے بعد آپ عمرہ کر کے واپس تشریف لے آئے، حالانکہ حج کے دن قریب تھے۔ (2) ”ایک آدمی۔“ یہ حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ تھے۔ (3) ”واجب ہو جاتا۔“ گویا حج کا حکم مطلق اترا تھا۔ اس میں ایک دفعہ یا ہر سال کی صراحت نہیں تھی۔ اس کا فیصلہ مصلحت مسلمین پر موقوف تھا۔ اگر آپ ’’ہر سال‘‘ میں مصلحت محسوس فرماتے تو ہر سال فرض ہو جاتا مگر یہ بات مصلحت کے خلاف تھی، اس لیے آپ نے اس شخص کی تائید نہ کی۔ (4) بعض مسائل میں شارع علیہ السلام نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار فرمائی ہے تاکہ مسلمانوں کو سہولت رہے۔ ایسے مسائل میں سوال کے ذریعے سے تنگی پیدا کرنا بری بات ہے۔ اسی طرح شریعت کی عطا کردہ وسعت کوختم کر دینا بھی بے جا تشدد ہے۔ جن مسائل میں شریعت نے معاملہ کھلا چھوڑا ہے، اسے کھلا ہی رکھنا چاہیے۔ اپنی طرف سے پابندیاں نہ لگائی جائیں، مثلاً: لباس، حجامت، بود وباش اور دیگر عادات۔ اسی طرح نفلی عبادات میں شریعت کے صریح احکام ہی کو کافی سمجھا جائے اور لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ نہ کیا جائے۔ کسی قوم کے رسوم و رواج جب تک صراحتاً شریعت کے خلاف نہ ہوں، ان پر پابندی نہ لگائی جائے اور نہ ان کا ثبوت ہی شریعت سے تلاش کیا جائے کیونکہ ثبوت کی ضرورت عبادات میں ہے نہ کہ عادات میں۔ عادات میں پابندی کا نہ ہونا ہی کافی ہے۔ (5) ”طاقت کے مطابق“ معلوم ہوا کہ ایک آدمی اپنی بساط اور طاقت کے مطابق ایک مامور بہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مکمل طور پر بجا نہیں لا پاتا، تو جتنے کام سے وہ عاجز آگیا ہو، وہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔ یہ بات نیکی کے کاموں کی ہے جنھیں کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، البتہ جن کاموں سے روکا گیا ہے، ان میں استطاعت کی قید نہیں، ان سے ہر صورت میں مکمل طور پر بچنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم (6) امر ہر جگہ تکرار کا تقاضا نہیں کرتا اور نہ ہر جگہ عدم تکرار کا تقاضا کرتا ہے بلکہ موقع محل، سیاق، قرائن یا دلائل سے تعین کیا جائے گا۔
الحکم التفصیلی:
قلت : واسمه يزيد بن أمية وهو ثقة ومنهم من عده في الصحابة . وله في الدارمي والدارقطني ومسند الطيالسي ( 2668 ) وأ حمد ( 1 / 292 و 301 و 323 و 325 ) متابع من طريق سماك عن عكرمة عن ابن عباس باختصار . وهو إسناد لا بأس به في المتابعات . وعن على رضي الله عنه قال : ( لما نزلت ( ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا ) قالوا : يا رسول الله أفي كل عام ؟ فسكت فقالوا : يا رسول الله في كل عام ؟ قال : لا ولو قلت : نعم لوجبت فانزل الله ( يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء ان تبد لكم تسؤكم ) ) . أخرجه الترمذي ( 1 / 155 ) وابن ماجه ( 2884 ) والدارقطني ( 281 ) وأحمد ( 1 / 113 ) عن على بن عبد الاعلى عن أبيه عن أبي البختري عنه . وقال الترمذي : ( حديث غريب ) . قلت : يعني ضعيف وعلته عبد الاعلى وهو ابن عامر الثعلبي ضعفه أحمد وأبو زرعة وغيرهما وابنه أحسن حالا منه خلافا لما يفيده كلام الحافظ في ( التقريب )
وعن أنس بن مالك نحو حديث ابن عباس دون قوله : ( ولم تستطيعوا . . . ) وزاد : ( ولما لم تقوموا بها عذبتم ) . أخرجه ابن ماجه ( 2885 ) . وإسناده صحيح كما قال البوصيري في ( الزوائد ) ( 178 / 2 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2620
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2618
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2620
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ”یقینا اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔“ ایک آدمی کہنے لگا: ہر سال؟ آپ خاموش رہے، حتیٰ کہ اس نے تین دفعہ یہ سوال دہرایا۔ آپ نے فرمایا: ”اگر میں ”ہاں“ کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور اگر ہر سال واجب ہو جاتا تو تم اسے ادا نہ کر سکتے۔ جب تک میں تمھیں چھوڑے رہوں، تم بھی مجھے چھوڑے رہا کرو۔ تم سے پہلے کے لوگ اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے اور زیادہ سوالات کرنے کی وجہ ہی سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق اس کی پابندی کرو اور جب تمھیں کسی چیز سے روک دوں تو اسے چھوڑ دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حج کی فرضیت تو اجماعی اور قطعی مسئلہ ہے، اختلاف ہے یہ کہ کب فرض ہوا۔ مشہور قول ۵ یا ۶ ہجری کا ہے مگر محقق بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۹ ہجری میں فرض ہوا، ورنہ آپ ۶ہجری میں عمرے کی بجائے حج کو جاتے۔ ۸ ہجری میں بھی فتح مکہ کے بعد آپ عمرہ کر کے واپس تشریف لے آئے، حالانکہ حج کے دن قریب تھے۔ (2) ”ایک آدمی۔“ یہ حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ تھے۔ (3) ”واجب ہو جاتا۔“ گویا حج کا حکم مطلق اترا تھا۔ اس میں ایک دفعہ یا ہر سال کی صراحت نہیں تھی۔ اس کا فیصلہ مصلحت مسلمین پر موقوف تھا۔ اگر آپ ’’ہر سال‘‘ میں مصلحت محسوس فرماتے تو ہر سال فرض ہو جاتا مگر یہ بات مصلحت کے خلاف تھی، اس لیے آپ نے اس شخص کی تائید نہ کی۔ (4) بعض مسائل میں شارع علیہ السلام نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار فرمائی ہے تاکہ مسلمانوں کو سہولت رہے۔ ایسے مسائل میں سوال کے ذریعے سے تنگی پیدا کرنا بری بات ہے۔ اسی طرح شریعت کی عطا کردہ وسعت کوختم کر دینا بھی بے جا تشدد ہے۔ جن مسائل میں شریعت نے معاملہ کھلا چھوڑا ہے، اسے کھلا ہی رکھنا چاہیے۔ اپنی طرف سے پابندیاں نہ لگائی جائیں، مثلاً: لباس، حجامت، بود وباش اور دیگر عادات۔ اسی طرح نفلی عبادات میں شریعت کے صریح احکام ہی کو کافی سمجھا جائے اور لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ نہ کیا جائے۔ کسی قوم کے رسوم و رواج جب تک صراحتاً شریعت کے خلاف نہ ہوں، ان پر پابندی نہ لگائی جائے اور نہ ان کا ثبوت ہی شریعت سے تلاش کیا جائے کیونکہ ثبوت کی ضرورت عبادات میں ہے نہ کہ عادات میں۔ عادات میں پابندی کا نہ ہونا ہی کافی ہے۔ (5) ”طاقت کے مطابق“ معلوم ہوا کہ ایک آدمی اپنی بساط اور طاقت کے مطابق ایک مامور بہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مکمل طور پر بجا نہیں لا پاتا، تو جتنے کام سے وہ عاجز آگیا ہو، وہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔ یہ بات نیکی کے کاموں کی ہے جنھیں کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، البتہ جن کاموں سے روکا گیا ہے، ان میں استطاعت کی قید نہیں، ان سے ہر صورت میں مکمل طور پر بچنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم (6) امر ہر جگہ تکرار کا تقاضا نہیں کرتا اور نہ ہر جگہ عدم تکرار کا تقاضا کرتا ہے بلکہ موقع محل، سیاق، قرائن یا دلائل سے تعین کیا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا تو فرمایا: ”اللہ عزوجل نے تم پر حج فرض کیا ہے“ ایک شخص نے پوچھا: کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے یہاں تک اس نے اسے تین بار دہرایا تو آپ نے فرمایا: ”اگر میں کہہ دیتا ہاں، تو وہ واجب ہو جاتا، اور اگر واجب ہو جاتا تو تم اسے ادا نہ کر پاتے، تم مجھے میرے حال پر چھوڑے رہو جب تک کہ میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھوں،۱؎ تم سے پہلے لوگ بکثرت سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کے سبب ہلاک ہوئے، جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس پر عمل کرو۔ اور جب کسی چیز سے روکوں تو اس سے باز آ جاؤ۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مطلب یہ ہے کہ غیر ضروری سوال نہ کیا کرو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) addressed the people and said: ‘Allah, the Mighty and Sublime, has enjoined upon you Hajj.’ A man said: ‘Every year?’ He remained silent until he had repeated it three times. Then he said: ‘If I said yes, it would be obligatory, and if it were obligatory you would not be able to do it. Leave me alone so long as I have left you alone. Those who came before you were destroyed because they asked too many questions and differed with their Prophets علیھم السلام. If I command you to do something then follow it as much as you can, and if I forbid you to do something then avoid it.” (Sahih)