باب: جس میت نے(فرض) حج نہ کیا ہو اس کی طرف سے حج کرنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Hajj On Behalf Of A Deceased Person Who did Not Perform Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2634.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبیﷺ سے اپنے والد کے بارے میں پوچھا جو (فرض) حج کیے بغیر فوت ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔“
تشریح:
اگر میت پر حج فرض ہو چکا ہو اور وہ نہ کر سکے تو پھر اس کی طرف سے حج کیا جائے گا، ورنہ اگر اس پر حج فرض ہی نہیں تھا تو اس کی طرف سے حج کرنے کی ضرورت نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2635
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2633
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2635
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبیﷺ سے اپنے والد کے بارے میں پوچھا جو (فرض) حج کیے بغیر فوت ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔“
حدیث حاشیہ:
اگر میت پر حج فرض ہو چکا ہو اور وہ نہ کر سکے تو پھر اس کی طرف سے حج کیا جائے گا، ورنہ اگر اس پر حج فرض ہی نہیں تھا تو اس کی طرف سے حج کرنے کی ضرورت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے اپنے والد کے بارے میں جو مر گئے تھے اور حج نہیں کیا تھا پوچھا: آپ نے فرمایا: ”تم اپنے والد کی طرف سے حج کر لو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that a woman asked the Prophet (ﷺ) about her father who had died and he did not perform Hajj. He said: “Perform Hajj on behalf of your father.” (Sahih).