Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Performing Hajj With A Young Child)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2645.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنا بچہ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہاتھوں پر بلند کیا اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! کیا اس کا بھی حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اور ثواب تجھے ملے گا۔“
تشریح:
(1) کم سن اور نابالغ پر فرائض کی ادائیگی ضروری نہیں لیکن اگر وہ کسی فرض کی ادائیگی کرے یا اسے ادائیگی کروا دی جائے تو وہ صحیح اور باعث اجر ہوگی، مثلاً: والدین کا شیر خوار بچے کو حج کروانا، تو ایسی صورت میں حج کا احرام اور اس کی پابندیاں والدین کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان کا خیال رکھیں، اسی لیے انھیں بچے کے نیک کاموں کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح سات سال کے بچے کا نمازروزہ ادا کرنا، لیکن اسے شرائط کا لحاظ بھی رکھنا ہوگا، مثلاً: نماز کے لیے طہارت اور وضو وغیرہ کا اہتمام کرنا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بچے کو ثواب ملے گا ہی نہیں، بلکہ بچے کو بھی ثواب ملے گا اور اولیاء چونکہ اسے محنت مشقت سے وہ کام کراتے ہیں، اس لیے انھیں اس مشقت کے باعث ثواب ملے گا۔ (2) اس بات پر قریباً اجماع ہے کہ بلوغت سے پہلے کا حج فرض حج کی جگہ کفایت نہیں کرے گا بلکہ وہ بلوغت کے بعد ادا کرنا ہوگا۔ راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے فتوے اس کی مضبوط دلیل ہیں۔ (3) اس حدیث میں مذکور جس بچے کی بابت سوال کیا گیا ہے وہ بچہ تو بہت ہی چھوٹا معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس عورت نے ہاتھ پر اٹھا لیا تھا۔ بہرحال والدہ کے لیے ثواب تو ہے ہی کیونکہ وہ اسے اٹھائے پھرتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2646
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2644
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2646
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنا بچہ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہاتھوں پر بلند کیا اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! کیا اس کا بھی حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اور ثواب تجھے ملے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کم سن اور نابالغ پر فرائض کی ادائیگی ضروری نہیں لیکن اگر وہ کسی فرض کی ادائیگی کرے یا اسے ادائیگی کروا دی جائے تو وہ صحیح اور باعث اجر ہوگی، مثلاً: والدین کا شیر خوار بچے کو حج کروانا، تو ایسی صورت میں حج کا احرام اور اس کی پابندیاں والدین کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان کا خیال رکھیں، اسی لیے انھیں بچے کے نیک کاموں کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح سات سال کے بچے کا نمازروزہ ادا کرنا، لیکن اسے شرائط کا لحاظ بھی رکھنا ہوگا، مثلاً: نماز کے لیے طہارت اور وضو وغیرہ کا اہتمام کرنا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بچے کو ثواب ملے گا ہی نہیں، بلکہ بچے کو بھی ثواب ملے گا اور اولیاء چونکہ اسے محنت مشقت سے وہ کام کراتے ہیں، اس لیے انھیں اس مشقت کے باعث ثواب ملے گا۔ (2) اس بات پر قریباً اجماع ہے کہ بلوغت سے پہلے کا حج فرض حج کی جگہ کفایت نہیں کرے گا بلکہ وہ بلوغت کے بعد ادا کرنا ہوگا۔ راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے فتوے اس کی مضبوط دلیل ہیں۔ (3) اس حدیث میں مذکور جس بچے کی بابت سوال کیا گیا ہے وہ بچہ تو بہت ہی چھوٹا معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس عورت نے ہاتھ پر اٹھا لیا تھا۔ بہرحال والدہ کے لیے ثواب تو ہے ہی کیونکہ وہ اسے اٹھائے پھرتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے اٹھایا اور پوچھا: اللہ کے رسول! کیا اس کا بھی حج ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (اس کا بھی حج ہے) اور تمہیں اس کا اجر ملے گا۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مطلب یہ ہے کہ چھوٹے بچے کو حج کرانا جائز ہے اس کا اجر ماں باپ کو ملے گا لیکن کوئی بچہ بالغ ہونے کے بعد صاحب استطاعت ہو جائے تو اس کے لیے دوبارہ فریضہ حج کی ادائیگی ضروری ہو گی بچپن کا کیا ہوا حج کافی نہیں ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that a woman held up a child of hers to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: “Messenger of Allah (ﷺ), is there Hajj for this one?” He said: “Yes, and you will be rewarded.” (Sahih)