Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Time When The Prophet Set Out From Al-Madinah For Hajj)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2650.
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حج کے لیے) چلے تو ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہم (عموماً) حج ہی کی نیت رکھتے تھے مگر جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب ہوئے تو آپ نے حکم فرمایا: ”جن کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ جب بیت اللہ کا طواف کر چکیں تو احرام ختم کر دیں (حلال ہو جائیں)۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے ہفتے کے دن نکلے جبکہ ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے اور آپ نے وقوف عرفہ جمعے کے دن فرمایا۔ مختلف تاریخوں کا ذکر ہے لیکن یہی قول اقرب الی الصواب ہے۔ واللہ أعلم (2) ”حج کی نیت رکھتے تھے۔“ اکثر صحابہ کی نیت یہی تھی مگر بعض صحابہ حتیٰ کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی عمرے کا احرام باندھے ہوئے تھیں۔ (3) ”احرام ختم کر دیں۔“ یعنی عمرہ کر کے حلال ہو جائیں، خواہ احرام حج ہی کا ہو۔ اس بات میں اختلاف ہے کہ کیا اب بھی ایسے جائز ہے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دیں؟ بظاہر یہ اب بھی جائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اخذ ہوتا ہے۔ اس موقف کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس موقع پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ آیا یہ اس سال کے ساتھ ہی خاص ہے یا یہ اجازت ہمیشہ کے لیے ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اسے قیامت تک کے لیے جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا: [دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِی الْحَجِ ّ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، لَا بَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ، لَابَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ]”تا قیامت عمرہ حج میں داخل ہوگیا، نہیں بلکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، نہیں بلکہ یہ اجازت ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے۔“ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (حجة النبي للألباني، ص: ۱۵) لیکن جمہور اہل علم اب اس کے جواز کے قائل نہیں۔ ان کے بقول یہ حکم صرف اس سال کے لیے تھا کیونکہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کی اجازت تازہ تازہ ملی تھی۔ پہلے لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا گناہ سمجھتے تھے، اس لیے وضاحت کے لیے آپ نے یہ حکم دیا۔ لیکن صریح حدیث کی روشنی میں یہ توجیہ محل نظر ہے۔ (4) ”جب بیت اللہ کا طواف کر چکیں۔“ یعنی مکمل عمرہ کر لیں۔ طواف کے بعد سعی بھی کر چکیں۔ یہ مسئلہ متفقہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2651
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2649
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2651
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حج کے لیے) چلے تو ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہم (عموماً) حج ہی کی نیت رکھتے تھے مگر جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب ہوئے تو آپ نے حکم فرمایا: ”جن کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ جب بیت اللہ کا طواف کر چکیں تو احرام ختم کر دیں (حلال ہو جائیں)۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے ہفتے کے دن نکلے جبکہ ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے اور آپ نے وقوف عرفہ جمعے کے دن فرمایا۔ مختلف تاریخوں کا ذکر ہے لیکن یہی قول اقرب الی الصواب ہے۔ واللہ أعلم (2) ”حج کی نیت رکھتے تھے۔“ اکثر صحابہ کی نیت یہی تھی مگر بعض صحابہ حتیٰ کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی عمرے کا احرام باندھے ہوئے تھیں۔ (3) ”احرام ختم کر دیں۔“ یعنی عمرہ کر کے حلال ہو جائیں، خواہ احرام حج ہی کا ہو۔ اس بات میں اختلاف ہے کہ کیا اب بھی ایسے جائز ہے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دیں؟ بظاہر یہ اب بھی جائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اخذ ہوتا ہے۔ اس موقف کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس موقع پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ آیا یہ اس سال کے ساتھ ہی خاص ہے یا یہ اجازت ہمیشہ کے لیے ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اسے قیامت تک کے لیے جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا: [دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِی الْحَجِ ّ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، لَا بَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ، لَابَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ]”تا قیامت عمرہ حج میں داخل ہوگیا، نہیں بلکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، نہیں بلکہ یہ اجازت ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے۔“ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (حجة النبي للألباني، ص: ۱۵) لیکن جمہور اہل علم اب اس کے جواز کے قائل نہیں۔ ان کے بقول یہ حکم صرف اس سال کے لیے تھا کیونکہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کی اجازت تازہ تازہ ملی تھی۔ پہلے لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا گناہ سمجھتے تھے، اس لیے وضاحت کے لیے آپ نے یہ حکم دیا۔ لیکن صریح حدیث کی روشنی میں یہ توجیہ محل نظر ہے۔ (4) ”جب بیت اللہ کا طواف کر چکیں۔“ یعنی مکمل عمرہ کر لیں۔ طواف کے بعد سعی بھی کر چکیں۔ یہ مسئلہ متفقہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ذی القعدہ کی پانچ تاریخیں رہ گئی تھیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مدینہ سے) سے نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، یہاں تک کہ جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو جن کے پاس ہدی (قربانی کا جانور) نہیں تھا حکم دیا کہ وہ طواف کر چکیں تو احرام کھول دیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aishah (RA) said: “We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) when there were five days left of Dhul-Qa’dah, with no intention other than to perform Hajj. When we were close to Makkah, the Messenger of Allah (ﷺ) commanded those who did not have a Hadi (sacrificial animal) with them to exit Ihram after circumambulating the House.” (Sahih)