مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2725.
حضرت براء ؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے حضرت علی ؓ کو یمن کا امیر بنایا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ جب وہ (حجۃ الوداع کے موقع پر یمن سے) رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا: میں آیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تو نے احرام کیسے باندھا ہے؟“ میں نے عرض کیا: میں نے تو آپ کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”میں تو قربانی کے جانور بھی ساتھ لایا ہوں اور میں نے حج و عمرے کا اکٹھا احرام باندھا ہے۔“ آپﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا: ’’اگر مجھے اس حکم کا پہلے پتا چل جاتا جس کا بعد میں پتا چلا (یعنی عمرے کے وجوب کا) تو میں اسی طرح کرتا جیسے تم نے کیا، لیکن میں تو قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں، لہٰذا میرا حج وعمرہ اکٹھا ہوگا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث کی سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہے جو عن سے بیان کر رہا ہے لیکن اس کے صحیح شواہد موجود ہیں۔ جن کا محقق کتاب نے بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک شاہد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث بھی ہے، لہٰذا یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے اور ابو اسحاق کا عنعنہ یہاں مضر نہیں۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۴/ ۱۵۹-۱۶۲) (2) ”کیسے احرام باندھا ہے؟“ یعنی صرف حج کا یا صرف عمرے کا یا دونوں کا؟ (3) ”آپ کے احرام کی طرح۔“ یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میرا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگا۔ اگرچہ اس وقت انھیں علم نہ تھا۔ کہ رسول اللہﷺ نے احرام کیسے باندھا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا عملاً بھی ان کا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگیا۔ (4) ”میں اسی طرح کرتا۔“ یعنی قربانی ساتھ نہ لاتا (بلکہ موقع پر خریدتا) اور عمرہ کر کے حلال ہو جاتا۔ (5) ثابت ہوا تمتع اور قران شرعاً جائز ہیں، بلکہ تمتع افضل ہے اور آسانی کا باعث بھی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذلك قال ابن القيم، وصححه أيضاً ابن
حجر) .
إسناده: حدثنا يحيى بن معين قال: ثنا حجاج: ثنا يونس عن أبي إسحاق
عن البراء.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير يونس- وهو ابن
أبي إسحاق السبيعي-، وهو ثقة من رجال مسلم، على ضعف يسير فيه، أشار
إليه الحافظ بقوله:
" صدوق يهم قليلاً ".
وبه أعله المنذري في "مختصره "!
وإعلاله بأبيه أولى عندي؛ لأنه كان مدلساً ومختلطاً، ولا ندري أسمعه ابنه
منه قبل الاختلاط أم بعده؟
لكن الحديث صحيح؛ لأن له شواهد في أحاديث متفرقة، فعامته قد صح في
حديث جابر الطويل في الحج، وسيأتي في الكتاب إن شاء الله تعالى (1663) .
وقوله: " وقرنت " يشهد له حديث أنس بن مالك... مرفوعاً؛ بلفظ:
"... ولو استقبلت من أمري ما استدبرت؛ لجعلتها عمرة، ولكن سقت
الهدي، وقرنت بين الحج والعمرة ".
أخرجه أحمد (3/148 و 266) ، والطحاوي (1/378- 379) من طريقين عن
أبي إسحاق عن أبي أسماء الصَّيقَلِ عنه.
لكنْ أبو أسماء هذا مجهول، لم يرو عنه غير أبي إسحاق، وهو السبيعي.
وحديث سراقة... مرفوعاً:
" دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة ".
قال: وقرن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في حجة الوداع.
أخرجه أحمد (4/175) ، والطحاوي (1/379) من طريق داود بن يزيد
الأوْدِيِّ؛ وهو ضعيف كما قال الهيثمي (3/235) . ووهم ابن القيم في "الزاد"
(1/250) ، فقال:
" إسناده ثقات "!
نعم أخرجه ابن ماجه (2977) بسند صحيح عن سُرَاقَةَ... به؛ دون
قوله: وقرن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ...
وعن جابر: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ، فقرن بين الحج والعمرة. قال الهيثمي:
" رواه البزار، ورجاله رجال (الصحيح) ".
وكأنه لهذه الشواهد؛ قال ابن القيم في "تهذيب السنَنِ ":
" حديث صحيح ".
وصححه الحافظ في "الفتح " (3/335) .
وعزاه ابن القيم في "الزاد" (1/262) للمتفق عليه! فوهم.
والحديث أخرجه البيهقي (5/15) من طريق المصنف.
وأخرجه النسائي (2/14 و 17) من طريقين آخرين عن يحيى بن
معين... به؛ دون ما بعد قوله: " وقرنت ".
وأعله البيهقي بأن قوله هذا: " وقرنت " لم يرد في. حديث جابر الطويل حين
وصف قدوم علي وإهلاله، وهو أصح سنداً وأحسن سياقة، ومعه حديث أنس.
قال المنذري:
" يريد: أن حديث أنس ذكر فيه قدوم علي وذكر إهلاله، وليس فيه: " قرنت "،
وهو في "الصحيحين "... ".
وأقول: لعل في تلك الشواهد المتقدمة ما يقوي هذه الزيادة، ويخلصها من
النكارة التي يشير إليها كلام البيهقي المذكور. والله أعلم.
(تنبيه) : قال العراقي في "طرح التثريب " (5/20) ، والحافظ في "الفتح "
(3/334) :
" ولأبي داود والنسائي من حديث البراء... مرفوعاً: " إني سقت الهدي
وقرنت ". وللنسائي من حديث علي مثله "!
قلت: حديث البراء وحديث علي واحد، ي. هو هذا أ غاية ما في الأمر أن البراء
رواه عنه؛ لقوله فيه:
قال (يعنيي: علياً) : فأتيت النجي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ....
ومثله عند النسائي في الموضعين.
وكذلك أورده الهيثمي (3/237) من رواية الطبراني في " الأوسط"، وقال:
" ورجاله رجال (الصحيح) ".
حضرت براء ؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے حضرت علی ؓ کو یمن کا امیر بنایا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ جب وہ (حجۃ الوداع کے موقع پر یمن سے) رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا: میں آیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تو نے احرام کیسے باندھا ہے؟“ میں نے عرض کیا: میں نے تو آپ کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”میں تو قربانی کے جانور بھی ساتھ لایا ہوں اور میں نے حج و عمرے کا اکٹھا احرام باندھا ہے۔“ آپﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا: ’’اگر مجھے اس حکم کا پہلے پتا چل جاتا جس کا بعد میں پتا چلا (یعنی عمرے کے وجوب کا) تو میں اسی طرح کرتا جیسے تم نے کیا، لیکن میں تو قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں، لہٰذا میرا حج وعمرہ اکٹھا ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کی سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہے جو عن سے بیان کر رہا ہے لیکن اس کے صحیح شواہد موجود ہیں۔ جن کا محقق کتاب نے بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک شاہد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث بھی ہے، لہٰذا یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے اور ابو اسحاق کا عنعنہ یہاں مضر نہیں۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۴/ ۱۵۹-۱۶۲) (2) ”کیسے احرام باندھا ہے؟“ یعنی صرف حج کا یا صرف عمرے کا یا دونوں کا؟ (3) ”آپ کے احرام کی طرح۔“ یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میرا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگا۔ اگرچہ اس وقت انھیں علم نہ تھا۔ کہ رسول اللہﷺ نے احرام کیسے باندھا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا عملاً بھی ان کا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگیا۔ (4) ”میں اسی طرح کرتا۔“ یعنی قربانی ساتھ نہ لاتا (بلکہ موقع پر خریدتا) اور عمرہ کر کے حلال ہو جاتا۔ (5) ثابت ہوا تمتع اور قران شرعاً جائز ہیں، بلکہ تمتع افضل ہے اور آسانی کا باعث بھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
براء بن عازب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب ؓ کے ساتھ تھا جس وقت رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن کا حاکم بنایا، پھر جب وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، علی ؓ نے کہا: تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: ”تم نے کیسے کیا ہے؟“ یعنی کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے، میں نے کہا: میں نے آپ کا تلبیہ پکارا ہے (یعنی آپ کے احرام کے مطابق احرام باندھا ہے)، آپ نے فرمایا: ”میں تو ہدی ساتھ لایا ہوں، اور میں نے قِران کیا ہے“، اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”اگر مجھے پہلے وہ باتیں معلوم ہوئی ہوتیں جواب معلوم ہوئی ہیں تو میں بھی ویسے ہی کرتا جیسے تم نے کیا ہے۱؎ لیکن میں ہدی ساتھ لایا ہوں، اور میں نے حج قِران کا احرام باندھ رکھا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی میں بھی احرام کھول کر حلال ہو جاتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Al-Bara’ said: “I was with ‘Ali Ibn Abi Talib (RA) when the Messenger of Allah (ﷺ) appointed him as goveror of Yemen. When he came to the Messenger of Allah (ﷺ) ‘Ali said: ‘I came to the Messenger of Allah (ﷺ) and the Messenger of Allah (ﷺ) said: “What did you do?” I said: “I entered Ihram for that for which you entered Ihram.” He said: “I have brought the Hadi and am performing Qirn” And he said to his companions: “If I had known what I know now, I would have done what you have done, but brought the Hadi and I am performing Qirn.” (Da’if)