مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2735.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ تمتع کے جواز کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اس قسم کا فتویٰ دینے سے رک جاؤ۔ شاید آپ کو پتا نہیں کہ تمھارے بعد امیرالمومنین (حضرت عمر ؓ ) نے اس کے بارے میں کیا نیا حکم جاری فرمایا ہے۔ (حضرت ابو موسیٰ نے کہا:) میں حضرت عمر ؓ سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا۔ وہ فرمانے لگے: تحقیق! مجھے بھی معلوم ہے کہ نبیﷺ نے یہ کیا ہے مگر میں نے اچھا نہ سمجھا کہ لوگ رات کو پیلو کے درختوں کے نیچے بیویوں کے ساتھ جماع کرتے رہیں اور پھر حج کو جائیں تو ان کے سروں سے (غسل جنابت کے) پانی کے قطرے گر رہے ہوں۔
تشریح:
(1) اس روایت سے حقیقت حال واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے شرعاً جائز سمجھتے تھے مگر مذکورہ علت کی وجہ سے حج تمتع کو بہتر نہ سمجھا جو کہ آپ کی ایک اجتہادی غلطی تھی، تاہم درست یہی ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ واللہ أعلم (2) ”نبی اکرمﷺ نے یہ کیا ہے۔“ یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا ورنہ آپ حلال نہ ہوئے تھے۔ یا لغوی معنیٰ میں آپ نے تمتع کیا ہے۔ اور اس معنیٰ میں تو حضرت عمر بھی تمتع (قران) کو ناپسند نہیں فرماتے تھے۔ (3) ”پیلو کے درختوں کے نیچے“ ان دنوں وہاں یہ درخت عام ہوں گے، اس لیے اتفاقاً ان کا ذکر فرمایا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ تمتع کے جواز کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اس قسم کا فتویٰ دینے سے رک جاؤ۔ شاید آپ کو پتا نہیں کہ تمھارے بعد امیرالمومنین (حضرت عمر ؓ ) نے اس کے بارے میں کیا نیا حکم جاری فرمایا ہے۔ (حضرت ابو موسیٰ نے کہا:) میں حضرت عمر ؓ سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا۔ وہ فرمانے لگے: تحقیق! مجھے بھی معلوم ہے کہ نبیﷺ نے یہ کیا ہے مگر میں نے اچھا نہ سمجھا کہ لوگ رات کو پیلو کے درختوں کے نیچے بیویوں کے ساتھ جماع کرتے رہیں اور پھر حج کو جائیں تو ان کے سروں سے (غسل جنابت کے) پانی کے قطرے گر رہے ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت سے حقیقت حال واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے شرعاً جائز سمجھتے تھے مگر مذکورہ علت کی وجہ سے حج تمتع کو بہتر نہ سمجھا جو کہ آپ کی ایک اجتہادی غلطی تھی، تاہم درست یہی ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ واللہ أعلم (2) ”نبی اکرمﷺ نے یہ کیا ہے۔“ یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا ورنہ آپ حلال نہ ہوئے تھے۔ یا لغوی معنیٰ میں آپ نے تمتع کیا ہے۔ اور اس معنیٰ میں تو حضرت عمر بھی تمتع (قران) کو ناپسند نہیں فرماتے تھے۔ (3) ”پیلو کے درختوں کے نیچے“ ان دنوں وہاں یہ درخت عام ہوں گے، اس لیے اتفاقاً ان کا ذکر فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ تمتع کا فتویٰ دیتے تھے ، تو ایک شخص نے ان سے کہا : آپ اپنے بعض فتاوے کو ملتوی رکھیں ۱؎ آپ کو امیر المؤمنین (عمر بن خطاب ؓ) نے اس کے بعد حج کے سلسلے میں جو نیا حکم جاری کیا ہے وہ معلوم نہیں، یہاں تک کہ میں ان سے ملا، اور میں نے ان سے پوچھا، تو عمر ؓ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا کیا ہے، لیکن میں یہ اچھا نہیں سمجھتا کہ لوگ «اراک» میں اپنی بیویوں سے ہمبستر ہوں، پھر وہ صبح ہی حج کے لیے اس حال میں نکلیں کہ ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آپ کا یہ فتویٰ امیر المؤمنین کے جاری کردہ حکم کے خلاف ہو اور وہ تم پر ناراض ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Musa (RA) said that he used to issue Fatwas concerning Tamattu’. Then a man said to him: “Withhold some of your Fatwas, for you do not know what the Commander of the Believers introduced into the rites subsequently.” Then when I met him, I asked him. ‘Umar said: “I know that the Messenger of Allah (ﷺ) and his Companions did it, but I did not like that people should lay with their wives in the shade of the Arak trees, and then go out for Hajj with their heads dripping.” (Sahih)