Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: not Saying Bismillah when Entering Ihram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2740.
حضرت محمد (باقر) ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس آئے اور ان سے نبیﷺ کے حج کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بیان فرمایا کہ رسول اللہﷺ کو مدینے میں رہتے ہوئے نو سال ہو چکے تھے، پھر (دسویں سال) تمام لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ اس سال رسول اللہﷺ حج کے لیے تشریف لے جائیں گے، لہٰذا بہت زیادہ لوگ مدینہ منورہ آگئے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ رسول اللہﷺ کی اقتدا میں حج کرے اور جس طرح آپ حج کریں، وہ بھی اسی طرح کرے۔ رسول اللہﷺ حج کے لیے نکلے تو ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے۔ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان تھے۔ آپ پر وحی اترتی تھی اور آپ ہی قرآن مجید کی صحیح تفسیر جانتے تھے، لہٰذا جو آپ نے کیا، ہم نے بھی کیا۔ ہم (مدینہ منورہ سے) نکلے تو ہماری نیت حج ہی کی تھی۔
تشریح:
(1) ”نو سال“ آپ نے اس دوران میں عمرے تو تین کیے مگر حج نہیں فرمایا۔ (2) ”اعلان کروایا گیا۔“ تاکہ تمام موجود مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی زیارت، صحابیت اور اقتدا کا شرف حاصل ہو۔ حج کے افعال براہ راست آپ سے سیکھیں۔ آپ سے شریعت کے دیگر مسائل کا علم حاصل کریں اور مسلمانوں کی اجتماعیت اور شان وشوکت کا اظہار ہو۔ (3) ”نیت حج کی تھی۔“ یعنی مدینے سے نکلتے وقت ورنہ احرام کے وقت تو بعض لوگوں نے عمرے کا احرام بھی باندھا تھا جیسا کہ پیچھے گزرا۔ یا اکثریت کی بات ہے۔ (4) امام نسائی رحمہ اللہ نے شاید نیت کے الفاظ سے یہ استنباط کیا ہے کہ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں۔ ویسے اس حدیث میں متعلقہ مسئلے کی وضاحت نہیں۔ بہت سی روایات میں [لبَّيكَ بعُمرةٍ وحجَّةٍ] کے الفاظ صراحتاً رسول اللہﷺ سے مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الحج، حدیث: ۱۵۶۳، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۲۳۲) ویسے اس بات پر اتفاق ہے کہ نیت کافی ہے۔ لبیک کے ساتھ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں، البتہ ابتدائی لبیک میں ذکر ہو تو اچھی بات ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وموسى بن داود - وهو الضبي - قال الحافظ في ( التقريب ) : ( صدوق فقيه زاهد له أوهام ) . وأما سليمان بن بلال فثقة محتج به في الصحيحين فيمكن أن يكون الضبي قد وهم عليه في هذا اللفظ وإلا فهو الواهم . والعصمة لله . وجملة القول : إن هذا اللفظ : ( ابدؤوا ) شاذ لا يثبت لتفرد الثوري وسليمان به مخالفين فيه سائر الثقات الذين سبق ذكرهم وهم سبعة وقد قالوا : ( نبدأ ) . فهو الصواب ولا يمكن القول بتصحيح اللفظ الاخر لان الحديث واحد وتكلم به صلى الله عليه وسلم مرة واحدة عند صعوده على الصفا فلابد من الترجيح وهو ما ذكرنا . وقد أشار إلى ذلك العلامة ابن دقيق العيد في ( الالمام بأحاديث الاحكام ) ( رقم 56 ) بعد أن ذكر هذا اللفظ من رواية النسائي :
( والحديث في ( الصحيح ) لكن بصيغة الخبر ( نبدأ ) و ( أبدأ ) لا بصيغة الامر والاكثر في الرواية هذا والمخرج للحديث واحد ) . وقال الحافظ في ( التلخيص ) : ( قال أبو الفتح القشيري ( 1 ) : ( مخرج الحديث عندهم واحد وقد اجتمع مالك وسفيان ويحيى بن سعيد القطان على رواية ( نبدأ ) بالنون التي للجمع ) . قلت : وهم أحفظ الناس ) . قلت : المتبادر من ( سفيان ) عند الاطلاق إنما هو الثوري لجلالته وعلو طبقته وليس هو المراد هنا بل هو سفيان بن عيينة كما سبق وأما الثوري فهو المخالف لرواية الجماعة ومن الطرائف أن روايته هذه رواها عنه سفيان بن عيينة عند الدارقطني وتابعه الفريابي وقبيصة عنه عند البيهقي . ومن الغرائب أن ابن التركماني في ( الجوهر النقي ) توهم أن سفيان عند البيهقي هو سفيان نفسه عند الترمذي ولكنه لم يذكر أهو عنده الثوري أم ابن عيينة وقد عرفت أنهما متغايران .
حضرت محمد (باقر) ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس آئے اور ان سے نبیﷺ کے حج کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بیان فرمایا کہ رسول اللہﷺ کو مدینے میں رہتے ہوئے نو سال ہو چکے تھے، پھر (دسویں سال) تمام لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ اس سال رسول اللہﷺ حج کے لیے تشریف لے جائیں گے، لہٰذا بہت زیادہ لوگ مدینہ منورہ آگئے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ رسول اللہﷺ کی اقتدا میں حج کرے اور جس طرح آپ حج کریں، وہ بھی اسی طرح کرے۔ رسول اللہﷺ حج کے لیے نکلے تو ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے۔ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان تھے۔ آپ پر وحی اترتی تھی اور آپ ہی قرآن مجید کی صحیح تفسیر جانتے تھے، لہٰذا جو آپ نے کیا، ہم نے بھی کیا۔ ہم (مدینہ منورہ سے) نکلے تو ہماری نیت حج ہی کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”نو سال“ آپ نے اس دوران میں عمرے تو تین کیے مگر حج نہیں فرمایا۔ (2) ”اعلان کروایا گیا۔“ تاکہ تمام موجود مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی زیارت، صحابیت اور اقتدا کا شرف حاصل ہو۔ حج کے افعال براہ راست آپ سے سیکھیں۔ آپ سے شریعت کے دیگر مسائل کا علم حاصل کریں اور مسلمانوں کی اجتماعیت اور شان وشوکت کا اظہار ہو۔ (3) ”نیت حج کی تھی۔“ یعنی مدینے سے نکلتے وقت ورنہ احرام کے وقت تو بعض لوگوں نے عمرے کا احرام بھی باندھا تھا جیسا کہ پیچھے گزرا۔ یا اکثریت کی بات ہے۔ (4) امام نسائی رحمہ اللہ نے شاید نیت کے الفاظ سے یہ استنباط کیا ہے کہ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں۔ ویسے اس حدیث میں متعلقہ مسئلے کی وضاحت نہیں۔ بہت سی روایات میں [لبَّيكَ بعُمرةٍ وحجَّةٍ] کے الفاظ صراحتاً رسول اللہﷺ سے مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الحج، حدیث: ۱۵۶۳، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۲۳۲) ویسے اس بات پر اتفاق ہے کہ نیت کافی ہے۔ لبیک کے ساتھ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں، البتہ ابتدائی لبیک میں ذکر ہو تو اچھی بات ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو جعفر محمد بن علی باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے نبی اکرم ﷺ کے حج کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نو سال تک مدینہ میں رہے پھر لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ امسال رسول اللہ ﷺ حج کو جانے والے ہیں، تو بہت سارے لوگ مدینہ آ گئے، سب یہ چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کریں اور وہی کریں جو آپ کرتے ہیں۔ تو جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی رہ گئے تو رسول اللہ ﷺ حج کے لیے نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تھے آپ پر قرآن اتر رہا تھا اور آپ اس کی تاویل (تفسیر) جانتے تھے اور جو چیز بھی آپ نے کی ہم نے بھی کی۔ چنانچہ ہم نکلے ہمارے پیش نظر صرف حج تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ja’far (RA) bin Muhammad said: “My father told me: ‘We came to Jabir bin ‘Abdullah and asked him about the Hajj of the Prophet (ﷺ). He told us: The Messenger of Allah (ﷺ) stayed in Al-Madinah for nine years of Hajj then it was announced to the people that the Messenger of Allah (ﷺ) was going to perform Hajj this year. Many people came to Al-Madinah, all of them hoping to learn from the Messenger of Allah (ﷺ) and to do as he did. The Messenger of Allah (ﷺ) set out when there were five days left of Dhul-Qa’dah, and we set out with him.” Jabir said: “And the Messenger of Allah (ﷺ) was among us; the Qur’an was being revealed to him, and he knew what it meant. Whatever he did based on it (the Qur’an), we did, and we set out with no intention other than Hajj.” (Sahih)