Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: What Should One Say When Stipulating A Condition?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2766.
حضرت ہلال بن خباب نے کہا: میں نے حضرت سعید بن جبیر سے آدمی کے احرام حج میں شرط لگانے کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے: شرط تو لوگوں کے درمیان ہوتی ہے (نہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ)۔ تو میں نے انھیں حضرت عکرمہ والی روایت بیان کی جو انھوں نے مجھے حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کی تھی کہ حضرت ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلبؓ نبیﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں تو میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: ”تو (احرام کے وقت) کہہ: میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میرے حلال ہونے کی جگہ وہ ہوگی جہاں تو مجھے روک لے۔ (یعنی جہاں بیماری مجھے عاجز کر دے۔) پھر جو تو اپنے رب سے شرط لگائے گی، تجھے اس پر عمل کرنے کا حق ہوگا۔“
تشریح:
”شرط لوگوں کے درمیان ہوتی ہے“ چونکہ حضرت سعید بن جبیر کو مذکورہ حدیث کا علم نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے ایسے کہا۔ جب نبیﷺ شرط لگوا رہے ہیں تو پھر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح. وأخرجه مسلم بنحوه عنه، والشيخان وابن
الجارود وابن حبان عن عائشة) .
إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا عَبَّاد بن العَوَام عن هلال بن خبّابٍ عن
عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير هلال، وهو حسن
الحديث.
وقد تابعه جمع من الثقات. عند مسلم.
وله شواهد خرجتها في "الإرواء" (1009- 1010)
حضرت ہلال بن خباب نے کہا: میں نے حضرت سعید بن جبیر سے آدمی کے احرام حج میں شرط لگانے کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے: شرط تو لوگوں کے درمیان ہوتی ہے (نہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ)۔ تو میں نے انھیں حضرت عکرمہ والی روایت بیان کی جو انھوں نے مجھے حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کی تھی کہ حضرت ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلبؓ نبیﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں تو میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: ”تو (احرام کے وقت) کہہ: میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میرے حلال ہونے کی جگہ وہ ہوگی جہاں تو مجھے روک لے۔ (یعنی جہاں بیماری مجھے عاجز کر دے۔) پھر جو تو اپنے رب سے شرط لگائے گی، تجھے اس پر عمل کرنے کا حق ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
”شرط لوگوں کے درمیان ہوتی ہے“ چونکہ حضرت سعید بن جبیر کو مذکورہ حدیث کا علم نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے ایسے کہا۔ جب نبیﷺ شرط لگوا رہے ہیں تو پھر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہلال بن خباب کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو مشروط حج کر رہا ہو تو انہوں نے کہا: یہ شرط بھی اس طرح ہے جیسے لوگوں کے درمیان اور شرطیں ہوتی ہیں۲؎ تو میں نے ان سے ان کی یعنی عکرمہ کی حدیث بیان کی، تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب ؓ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حج کرنا چاہتی ہوں، تو کیسے کہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کہو : «اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ وَمَحِلِّي مِنْ الْأَرْضِ حَيْثُ تَحْبِسُنِي» ”حاضر ہوں، اے اللہ! حاضر ہوں، جہاں تو مجھے روک دے، وہیں میں حلال ہو جاؤں گی“، کیونکہ تو نے جو شرط کی ہے وہ تیرے رب کے اوپر ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی جس طرح اور شرطیں جائز ہیں اسی طرح یہ شرط بھی جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Hilal bin Khabbab said: “I asked Saeed bin Jubair about a man who performs Hajj and stipulates a condition. He said: ‘Conditions are something that people do among themselves.’ I narrated the Hadith of ‘Ikrimah to him, and he narrated to me from Ibn ‘Abbas, that Duba’ah bint Az-Zubair bin ‘Abdul-Muttalib came to the Prophet (ﷺ) , and said: ‘O Messenger of Allah (ﷺ), I want to perform Hajj, so what should I say? He said: ‘Say: (Here I am, O Allah, Here I am, and I shall exit Ihram at any place where You decree that I cannot proceed.)” And whatever condition you stipulate will be accepted by your Lord.” (Hasan)