باب: جس آدمی کے ساتھ قربانی کاجانور نہ ہو ‘وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل سکتا ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: It Is Permissible To Cancel Hajj And Do 'Umrah Instead If One Has Not Brought A Hadi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2813.
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اہل جاہلیت یہ سمجھتے تھے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر سب سے بڑا گناہ ہے۔ وہ محرم کو صفر بنا لیا کرتے تھے اور کہتے تھے: جب اونٹوں کی پشت پر لگنے والے زخم ٹھیک ہو جائیں اور خوب اون اگ آئے اور صفر (محرم) گزر جائے، یا انھوں نے کہا: صفر کا مہینہ شروع ہو جائے تو پھر عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ حلال ہوتا ہے۔ نبیﷺ (حجۃ الوداع میں) اور آپ کے صحابہ چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کی لبیک کہتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ اس حج کے احرام کو عمرہ بنا لیں۔ یہ چیز ان کے نزدیک بڑی شاق تھی۔ (کہ وہ حلال ہو جائیں) تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس قسم کی حلت؟ آپ نے فرمایا: ”پوری حلت۔“
تشریح:
(1) ”سب سے بڑا گناہ ہے۔“ ان کا خیال تھا کہ حج کے مہینوں میں صرف حج ہی کرنا چاہیے۔ عمرے کے لیے بعد میں الگ سے سفر کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ چونکہ اس میں دور سے آنے والے لوگوں کے لیے تنگی تھی، لہٰذا شریعت نے دور سے آنے والوں کے لیے حج سے پہلے عمرے کی اجازت دے دی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اب بھی بہتر یہی ہے کہ حج کے دنوں میں حج ہی کیا جائے۔ عمرہ حج کے علاوہ باقی دنوں میں کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ ویسے ان کے نزدیک تمتع بھی جائز ہے، البتہ افضل نہیں۔ (2) حج کے مہینوں سے مراد ہیں: شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ کے پہلے ۹ دن کیونکہ ان دنوں میں حج کا احرام باندھا جا سکتا ہے۔ بعض نے پورا ذوالحجہ بھی مراد لیا ہے کیونکہ اس کا نام ہی حج کا مہینہ ہے، لہٰذا ان کے نزدیک عمرہ ذوالحجہ کے بعد ہی ہونا چاہیے، الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو جیسے حضرت عائشہؓ کو تھی۔ (3) ”محرم کو صفر“ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم تین مہینے اکٹھے حرمت کے ہیں۔ جب کفار کو مسلسل تین مہینے حرمت کے گزارنے مشکل ہو جاتے تو وہ محرم کو صفر قرار دے لیتے۔ اپنی تنگی دور کرنے کے بعد صفر کو محرم قرار دے لیتے اور حرمت کی پابندیوں پر عمل کرتے تاکہ گنتی پوری ہو جائے، مگر یہ شریعت کے ساتھ مذاق ہے کہ اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے شریعت کا حکم بدل دیا جائے۔ اسی لیے قران مجید نے اس کے بارے میں برے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں: ﴿إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ﴾(التوبة: ۳۷) عربی میں اس فعل کونسی (تاخیر) کہا جاتا ہے۔ (4) ”زخم ٹھیک ہو جائیں۔“ حج کے سفر کے دوران میں پالان لگ لگ کر پیٹھ پر زخم بن جاتے تھے۔ ان کا مطلب تھا کہ جب تک وہ زخم ٹھیک نہیں ہو جاتے، عمرے کا سفر شروع نہ کیا جائے۔ (5) ”اون اگ آئے“ پالانوں کی وجہ سے اون جھڑ جاتی تھی، نیز زخموں والی جگہ بھی اون سے خالی ہو جاتی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ دوبارہ اچھی طرح اون اگ آئے، تب عمرے کا سفر شروع کیا جائے۔ (6) ”اور صفر گزر جائے۔“ مراد محرم ہے کیونکہ وہ محرم کو صفر بنا لیتے تھے، لہٰذا دوسرا جملہ ”یا صفر شروع ہو جائے۔“ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس دوسرے جملے میں صفر سے حقیقی صفر مراد ہے، یعنی محرم گزر جائے اور صفر شروع ہو جائے تو پھر وہ عمرہ کرنے کے قائل تھے۔ (باقی مباحث پیچھے گزر چکے ہیں۔)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اہل جاہلیت یہ سمجھتے تھے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر سب سے بڑا گناہ ہے۔ وہ محرم کو صفر بنا لیا کرتے تھے اور کہتے تھے: جب اونٹوں کی پشت پر لگنے والے زخم ٹھیک ہو جائیں اور خوب اون اگ آئے اور صفر (محرم) گزر جائے، یا انھوں نے کہا: صفر کا مہینہ شروع ہو جائے تو پھر عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ حلال ہوتا ہے۔ نبیﷺ (حجۃ الوداع میں) اور آپ کے صحابہ چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کی لبیک کہتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ اس حج کے احرام کو عمرہ بنا لیں۔ یہ چیز ان کے نزدیک بڑی شاق تھی۔ (کہ وہ حلال ہو جائیں) تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس قسم کی حلت؟ آپ نے فرمایا: ”پوری حلت۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”سب سے بڑا گناہ ہے۔“ ان کا خیال تھا کہ حج کے مہینوں میں صرف حج ہی کرنا چاہیے۔ عمرے کے لیے بعد میں الگ سے سفر کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ چونکہ اس میں دور سے آنے والے لوگوں کے لیے تنگی تھی، لہٰذا شریعت نے دور سے آنے والوں کے لیے حج سے پہلے عمرے کی اجازت دے دی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اب بھی بہتر یہی ہے کہ حج کے دنوں میں حج ہی کیا جائے۔ عمرہ حج کے علاوہ باقی دنوں میں کیا جائے تاکہ بیت اللہ سارا سال آباد رہے۔ ویسے ان کے نزدیک تمتع بھی جائز ہے، البتہ افضل نہیں۔ (2) حج کے مہینوں سے مراد ہیں: شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ کے پہلے ۹ دن کیونکہ ان دنوں میں حج کا احرام باندھا جا سکتا ہے۔ بعض نے پورا ذوالحجہ بھی مراد لیا ہے کیونکہ اس کا نام ہی حج کا مہینہ ہے، لہٰذا ان کے نزدیک عمرہ ذوالحجہ کے بعد ہی ہونا چاہیے، الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو جیسے حضرت عائشہؓ کو تھی۔ (3) ”محرم کو صفر“ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم تین مہینے اکٹھے حرمت کے ہیں۔ جب کفار کو مسلسل تین مہینے حرمت کے گزارنے مشکل ہو جاتے تو وہ محرم کو صفر قرار دے لیتے۔ اپنی تنگی دور کرنے کے بعد صفر کو محرم قرار دے لیتے اور حرمت کی پابندیوں پر عمل کرتے تاکہ گنتی پوری ہو جائے، مگر یہ شریعت کے ساتھ مذاق ہے کہ اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے شریعت کا حکم بدل دیا جائے۔ اسی لیے قران مجید نے اس کے بارے میں برے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں: ﴿إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ﴾(التوبة: ۳۷) عربی میں اس فعل کونسی (تاخیر) کہا جاتا ہے۔ (4) ”زخم ٹھیک ہو جائیں۔“ حج کے سفر کے دوران میں پالان لگ لگ کر پیٹھ پر زخم بن جاتے تھے۔ ان کا مطلب تھا کہ جب تک وہ زخم ٹھیک نہیں ہو جاتے، عمرے کا سفر شروع نہ کیا جائے۔ (5) ”اون اگ آئے“ پالانوں کی وجہ سے اون جھڑ جاتی تھی، نیز زخموں والی جگہ بھی اون سے خالی ہو جاتی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ دوبارہ اچھی طرح اون اگ آئے، تب عمرے کا سفر شروع کیا جائے۔ (6) ”اور صفر گزر جائے۔“ مراد محرم ہے کیونکہ وہ محرم کو صفر بنا لیتے تھے، لہٰذا دوسرا جملہ ”یا صفر شروع ہو جائے۔“ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس دوسرے جملے میں صفر سے حقیقی صفر مراد ہے، یعنی محرم گزر جائے اور صفر شروع ہو جائے تو پھر وہ عمرہ کرنے کے قائل تھے۔ (باقی مباحث پیچھے گزر چکے ہیں۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (زمانہ جاہلیت میں) لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کر لینے کو زمین میں ایک بہت بڑا گناہ تصور کرتے تھے، اور محرم (کے مہینے) کو صفر کا (مہینہ) بنا لیتے تھے، اور کہتے تھے: جب اونٹ کی پیٹھ کا زخم اچھا ہو جائے، اور اس کے بال بڑھ جائیں اور صفر کا مہینہ گزر جائے یا کہا صفر کا مہینہ آ جائے تو عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ حلال ہو گیا چنانچہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب ذی الحجہ کی چار تاریخ کی صبح کو (مکہ میں) حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے آئے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ اسے عمرہ بنا لیں، تو انہیں یہ بات بڑی گراں لگی۱؎، چنانچہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کون کون سی چیزیں حلال ہوں گی؟ تو آپ نے فرمایا: ”احرام سے جتنی بھی چیزیں حرام ہوئی تھیں وہ ساری چیزیں حلال ہو جائیں گی۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ یہ بات ان کے عقیدے کے خلاف تھی، وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Abbás said: “They used to think that performing ‘Umrah during the months of Hajj was one of the worst of evil actions on Earth, and they used to call Muharram ‘Safar,’ and say: ‘When the sore on the backs of the camels have healed and when their hair grows back and when Safar is over’ — or he said: ‘When Safar begins — then ‘Umrah becomes permissible for whoever wants to do it.’ Then the Prophet (ﷺ) and his Companions came on the morning of the fourth of Dhul Hijjah, reciting the Talbiyah for Hajj. He told them to make it ‘Umrah, and they found it too difficult to do that. They said: ‘Messenger of Allah (ﷺ) to what degree should we exit. He said: ‘Completely.” (Sahih)