باب: جس آدمی کے ساتھ قربانی کاجانور نہ ہو ‘وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل سکتا ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: It Is Permissible To Cancel Hajj And Do 'Umrah Instead If One Has Not Brought A Hadi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2815.
حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ”۔یہ عمرہ ہے۔ ہم نے (حج کے ساتھ) اس کا فائدہ اٹھایا ہے، لہٰذا جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہیں، وہ مکمل طور پر حلال ہو جائے، اور سن لو کہ عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔“
تشریح:
(1) ”لہٰذا“ یعنی عمرہ کرنے کی وجہ سے ہمارا حج تمتع بن گیا ہے، لہٰذا عمرے اور حج کے درمیان حلال ہونا چاہیے تاکہ عمرے کی اپنی جداگانہ حیثیت واضح ہو، البتہ شرط یہ ہے کہ ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو۔ (2) ”عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔“ اس کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں: *حج کے دنوں میں عمرہ کیا جا سکتا ہے، کوئی پابندی نہیں۔ *حج اور عمرہ اکٹھے ہوگئے، لہٰذا حج کا احرام باندھ کر عمرہ کرنے کے بعد حلال ہو سکتا ہے۔ *عمرے کے افعال الگ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر حج اور عمرہ اکٹھے (قران کی صورت میں) ادا ہو رہے ہیں تو صرف حج کے افعال کافی ہیں۔ صرف نیت میں عمرہ ہوگا۔ افعال حج ہی کے ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے ہے۔ *عمرہ حج میں داخل ہے، لہٰذا حج فرض ہونے کے بعد عمرہ ضروری نہیں رہا۔ حج ہی سے کفایت ہو جائے گی۔ ان چاروں معانی میں سے پہلے معنیٰ متفق علیہ ہیں۔ دوسرے معنیٰ صرف امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک، تیسرے معنیٰ امام شافعی کے نزدیک اور چوتھے معنیٰ صرف احناف کے نزدیک معتبر ہیں۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه مسلم. وأعلهُ
المصنف رحمه الله بما لا يقدح! ولذا صححه المنذري وابن القيم) .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة أن محمد بن جعفر حدثهم عن شعبة
عن الحكم عن مجاهد عن ابن عباس.
قال أبو داود: " هذا منكر؛ وإنما هو قول ابن عباس "!
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه مسلم كما يأتي.
وأعله المصنف بالوقف كما رأيت! ولا وجه له البتة، فقد رواه جمع آخر من
الثقات عن شعبة... به مرفوعاً، فممن الوهم، وما الدليل عليه؟!
ولذلك لم يقبل العلماء ذلك منه، فقال المنذري في "مختصره ":
" وفيما قاله أبو داود نظر، وذلك أنه قد رواه الإمام أحمد ومحمد بن المثنى
ومحمد بن بشار وعثمان بن أبي شيبة عن محمد بن جعفر عن شعبة...
مرفوعاً. ورواه أيضاً يزيد بن هارون ومعاذ بن معاذ العنبري وأبو داود الطيالسي
وعمرو بن مرزوق عن شعبة... مرفوعاً، وتقصير من قصر به من الرواة لا يؤثر فيما
أثبته الحفاظ ". وقال ابن القيم في "التهذيب ":
" وقوله: " دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة " لا ريب في أنه من كلام
رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولم يقل أحد: إنه من قول ابن عباس. وكذلك قوله: " هذه
عمرة تمتعنا بها ". وهذا لا يشك فيه من له أدنى خبرة بالحديث ".
قلت: ولقد صدق رحمه الله.
أما الجملة الأولى: " دخلت العمرة... "؛ فلها طريق أخرى عن مجاهد،
سأخرجها بعد حديث.
ولها شاهد صحيح من حديث جابر الطويل، الآتي برقم (1663) .
وله طريق أخرى: أخرجه الدارقطني (ص 282) من طريق أبي الزبير عن جابر
عن سراقة بن مالك... مرفوعاً به. وقال:
"كلهم ثقات ".
وصححه النووي في "المجموع "؛ وأبو الزبير مدلس.
وقد رواه أحمد (4/175) من طريق طاوس والنزال بن يزيد بن سبرة عن
سراقة... به.
والطريق الأولى رجالها ثقات؛ لكن طاوس لم يسمع من سراقة.
والأخرى موصولة، ولكن فيها داود بن يزيد- وهو الأوْدِي- ضعيف.
وعنه: الطحاوي (1/379) .
وأما الجملة الأخرى- وهي قوله: " هذه عمرة تمتعنا بها "-؛ فلها شواهد
كثيرة؛ فإن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان قارناً، كما هو القول الصحيح المؤيد بأحاديث كثيرة،
في بعضها التصريح بذلك، كحديث البراء الآتي قريباً، ومثله بعض أصحابه من
الذين كانوا ساقوا الهدي فلم يَحِلّوا، وسائرهم أحَلوا؛ لأنهم ما ساقوا الهدي، فهو
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والصحابة جميعاً كانوا قد تمتعوا بالعمرة إلى الحج على التفصيل المذكور.
ولذلك قال ابن عمر- كما يأتي (1584) -:
تمتع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... وتمتع الناس معه...
ولذلك فَهمْ جميعاً يشملهم قوله تعالى: (فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما
استيسر من الهدي) . فقول البيهقي (5/18) : إنه " أراد أصحابه الذين حَلُوا
واستمتعوا "! غير قوي؛ لما ذكرنا، وتجد تفصيله في "زاد المعاد" لابن القيم رحمه
الله تعالى.
ثم أن ابن القيم جزم بعد كلامه السابق بأن قول المصنف المذكور في إعلال
الحديث؛ إنما محله بعد الحديث الآتي، أخطأ بعض النساخ، فنقله إلى هنا، وهو
أمر محتمل، وسأنقل كلامه في ذلك قريباً، وأبين ما يَرِدُ عليه أيضاً.
والحديث أخرجه مسلم (4/57) ، والنسائي (2/24) ، والدارمي (2/50) ،
والبيهقي (5/18) ، وأحمد (1/236 و 341) من طريق أخرى عن شعبة... به.
وعزاه العراقي في "طرح التثريب " (5/19) لـ " الصحيحين "، وهو وهم.
ورواه للترمذي عن يزيد بن أبي زياد عن مجاهد... به، وقال (932) :
" حديث حسن ".
حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ”۔یہ عمرہ ہے۔ ہم نے (حج کے ساتھ) اس کا فائدہ اٹھایا ہے، لہٰذا جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہیں، وہ مکمل طور پر حلال ہو جائے، اور سن لو کہ عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”لہٰذا“ یعنی عمرہ کرنے کی وجہ سے ہمارا حج تمتع بن گیا ہے، لہٰذا عمرے اور حج کے درمیان حلال ہونا چاہیے تاکہ عمرے کی اپنی جداگانہ حیثیت واضح ہو، البتہ شرط یہ ہے کہ ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو۔ (2) ”عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔“ اس کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں: *حج کے دنوں میں عمرہ کیا جا سکتا ہے، کوئی پابندی نہیں۔ *حج اور عمرہ اکٹھے ہوگئے، لہٰذا حج کا احرام باندھ کر عمرہ کرنے کے بعد حلال ہو سکتا ہے۔ *عمرے کے افعال الگ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر حج اور عمرہ اکٹھے (قران کی صورت میں) ادا ہو رہے ہیں تو صرف حج کے افعال کافی ہیں۔ صرف نیت میں عمرہ ہوگا۔ افعال حج ہی کے ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے ہے۔ *عمرہ حج میں داخل ہے، لہٰذا حج فرض ہونے کے بعد عمرہ ضروری نہیں رہا۔ حج ہی سے کفایت ہو جائے گی۔ ان چاروں معانی میں سے پہلے معنیٰ متفق علیہ ہیں۔ دوسرے معنیٰ صرف امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک، تیسرے معنیٰ امام شافعی کے نزدیک اور چوتھے معنیٰ صرف احناف کے نزدیک معتبر ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے، تو جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پورے طور پر حلال ہو جائے، کیونکہ عمرہ حج میں شامل ہو گیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that the Prophet (ﷺ) said: “This is ‘Umrah that we have benefited from. Whoever does not have a Hadi with him, let him exit Ihram completely. Now ‘Umrah is permissible during the months of Hajj.” (Sahih)