Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: What Game The Muhrim Is Permitted To Eat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2816.
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ حتیٰ کہ جب وہ مکہ مکرمہ کے راستے میں تھے تو کچھ ساتھیوں کے ساتھ آپ سے پیچھے رہ گئے۔ وہ ساتھی محرم تھے مگر وہ (ابوقتادہ) محرم نہیں تھے۔ انھوں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے، پھر انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ انھیں ان کا کوڑا پکڑا دیں۔ ان لوگوں نے انکار کیا، پھر انھوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا تو انھوں نے دینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے (خود اتر کر) اسے (یعنی کوڑا) اٹھایا اور پھر جنگلی گدھے کا پیچھا کیا اور اسے قتل کر دیا۔ (نبیﷺ کے کچھ صحابہ نے اس کا گوشت کھا لیا اور کچھ نے انکار کیا، پھر جب وہ رسول اللہﷺ سے ملے تو آپ سے اس کی بابت پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ کھانا تھا جو اس نے تمھیں کھانے کے لیے مہیا فرمایا تھا۔“
تشریح:
(1) یہ عمرے کے سفر کی بات ہے۔ اس عمرے کو عمرۃ الحدیبیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ۶ہجری میں ہوا۔ (2) ”وہ محرم نہیں تھے“ دراصل آپ نے انھیں کسی اور کام پر بھیجا تھا۔ (3) ”انھوں نے انکار کیا“ کیونکہ محرم کے لیے شکار کرنا بھی منع ہے اور کسی شکار میں تعاون کرنا بھی حرام ہے۔ (4) اگر محرم نے خود شکار نہ کیا ہو اور نہ شکار ہی میں کچھ تعاون کیا ہو تو وہ محرم اس شکار کا گوشت کھا سکتا ہے بشرطیکہ شکار کرنے والا اور ذبح کرنے والا حلال ہو، محرم نہ ہو۔ بعض دوسری احادیث میں یہ شرط بھی ہے کہ شکار کرنے والے شخص نے وہ شکار محرم کے لیے نہ کیا ہو بلکہ اپنے لیے کیا ہو، بعد میں وہ بطور تحفہ محرم کو دے تو وہ کھا سکتا ہے۔ دیکھیے: (مسند احمد: ۵/ ۳۰۲، وجامع الترمذي، الحج، حدیث: ۸۴۹) یہ احادیث صحیح ہیں، لہٰذا یہ شرط بھی ضروری ہے۔ احناف بلا وجہ اس شرط کو ضروری نہیں سمجھتے مگر اس طرز عمل سے بہت سی احادیث عمل سے رہ جائیں گی جو یقینا غیر مناسب بات ہے۔ ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔ (5) اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔ (6) مجتہد اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرے گا اگرچہ اس کی رائے کی مخالفت کی گئی ہو۔ (7) جب کسی مسئلے میں اختلاف واقع ہو جائے تو نص کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ حتیٰ کہ جب وہ مکہ مکرمہ کے راستے میں تھے تو کچھ ساتھیوں کے ساتھ آپ سے پیچھے رہ گئے۔ وہ ساتھی محرم تھے مگر وہ (ابوقتادہ) محرم نہیں تھے۔ انھوں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے، پھر انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ انھیں ان کا کوڑا پکڑا دیں۔ ان لوگوں نے انکار کیا، پھر انھوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا تو انھوں نے دینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے (خود اتر کر) اسے (یعنی کوڑا) اٹھایا اور پھر جنگلی گدھے کا پیچھا کیا اور اسے قتل کر دیا۔ (نبیﷺ کے کچھ صحابہ نے اس کا گوشت کھا لیا اور کچھ نے انکار کیا، پھر جب وہ رسول اللہﷺ سے ملے تو آپ سے اس کی بابت پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ کھانا تھا جو اس نے تمھیں کھانے کے لیے مہیا فرمایا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ عمرے کے سفر کی بات ہے۔ اس عمرے کو عمرۃ الحدیبیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ۶ہجری میں ہوا۔ (2) ”وہ محرم نہیں تھے“ دراصل آپ نے انھیں کسی اور کام پر بھیجا تھا۔ (3) ”انھوں نے انکار کیا“ کیونکہ محرم کے لیے شکار کرنا بھی منع ہے اور کسی شکار میں تعاون کرنا بھی حرام ہے۔ (4) اگر محرم نے خود شکار نہ کیا ہو اور نہ شکار ہی میں کچھ تعاون کیا ہو تو وہ محرم اس شکار کا گوشت کھا سکتا ہے بشرطیکہ شکار کرنے والا اور ذبح کرنے والا حلال ہو، محرم نہ ہو۔ بعض دوسری احادیث میں یہ شرط بھی ہے کہ شکار کرنے والے شخص نے وہ شکار محرم کے لیے نہ کیا ہو بلکہ اپنے لیے کیا ہو، بعد میں وہ بطور تحفہ محرم کو دے تو وہ کھا سکتا ہے۔ دیکھیے: (مسند احمد: ۵/ ۳۰۲، وجامع الترمذي، الحج، حدیث: ۸۴۹) یہ احادیث صحیح ہیں، لہٰذا یہ شرط بھی ضروری ہے۔ احناف بلا وجہ اس شرط کو ضروری نہیں سمجھتے مگر اس طرز عمل سے بہت سی احادیث عمل سے رہ جائیں گی جو یقینا غیر مناسب بات ہے۔ ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔ (5) اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔ (6) مجتہد اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرے گا اگرچہ اس کی رائے کی مخالفت کی گئی ہو۔ (7) جب کسی مسئلے میں اختلاف واقع ہو جائے تو نص کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ (حج کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ مکہ کے راستہ میں احرام باندھے ہوئے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے، اور وہ خود محرم نہیں تھے (وہاں) انہوں نے ایک نیل گائے دیکھی، تو وہ اپنے گھوڑے پر جم کر بیٹھ گئے، پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے درخواست کی وہ انہیں ان کا کوڑا دے دیں، تو ان لوگوں نے انکار کیا تو انہوں نے خود ہی لے لیا، پھر تیزی سے اس پر جھپٹے، اور اسے مار گرایا، تو اس میں سے نبی اکرم ﷺ کے بعض اصحاب نے کھایا، اور بعض نے کھانے سے انکار کیا۔ پھر ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو پا لیا تو آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو ایسی غذا ہے جسے اللہ عزوجل نے تمہیں کھلایا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Qatadah that he was with the Messenger of Allah (ﷺ) when they were partway to Makkah, he lagged behind with some companions of his who were in Ihram, but he was not in Ihram. He saw an onager, so he mounted his horse, then he asked his companions to hand him his whip, but they refused. He asked them to hand him his spear, but they refused. He took it, then chased the onager and killed it. Some of the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ) ate from it but others refused. They caught up with the Messenger of Allah (ﷺ) and asked him about that, and he said: “That is food that Allah, the Mighty and Sublime, gave to you.”(Sahih)