Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: What Game The Muhrim Is Permitted To Eat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2818.
حضرت (زید بن کعب) بہزی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مکہ مکرمہ کے ارادے سے نکلے۔ آپ احرام باندھے ہوئے تھے حتیٰ کہ جب وہ (لوگ) مقام روحاء میں پہنچے تو انھوں نے ایک زخمی جنگلی گدھا دیکھا۔ اس بات کا تذکرہ رسول اللہﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے کچھ نہ کہو۔ ہو سکتا ہے اسے زخمی کرنے والا آجائے۔“ اتنے میں وہ بہزی بھی رسو ل اللہﷺ کے پاس آگیا جس نے اسے زخمی کیا تھا۔ کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اس جنگلی گدھے کو آپ اپنی مرضی کے مطابق استعمال فرمائیے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو (تقسیم کرنے کا) حکم دیا تو انھوں نے اسے تمام ساتھیوں میں تقسیم کر دیا، پھر آپ چل پڑے حتیٰ کہ جب رویثہ اور عرج کے درمیان اثایہ مقام پر پہنچے تو ایک ہرن سائے میں سر جھکائے کھڑا آرام کر رہا تھا اور اس میں ایک تیر گھسا ہوا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو حکم دیا: اس کے پاس کھڑا رہ تاکہ کوئی شخص اسے پریشان نہ کرے حتیٰ کہ قافلہ اس سے آگے گزر جائے۔
تشریح:
(1) ”بہز“ یعنی قبیلہ بہز کا ایک فرد۔ ان کا نام زید بن کعب ہے اور یہ صحابی ہیں۔ (2) ”جنگلی گدھا“ یہ دراصل جنگلی گائے ہوتی ہے لیکن چونکہ اس کا پاؤں گدھے کی طرح خم دار ہوتا ہے، اس لیے اس معمولی مناسبت کی وجہ سے جنگلی گدھا کہہ دیا جاتا ہے۔ ورنہ حقیقتاً وہ گدھا نہیں ہوتا۔ تبھی توکھانا جائز ہے۔ (3) ”اسے کچھ نہ کہو“ محرم کو اجازت نہیں کہ وہ کسی جانور کا شکار کرے یا شکار کیے ہوئے کو پکڑے یا ذبح کرے، ہاں کوئی غیر محرم شخص اپنی مرضی سے اسے شکار کر کے بلکہ ذبح کر کے محرم کو دے دے تو وہ کھا سکتا ہے جیسا کہ اس بہزی نے کیا تھا، ورنہ وہ جانور کو اسی طرح رہنے دیں جیسا کہ بعد میں ہرن کے ساتھ ہوا۔ (4) روحاء مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب تیس چالیس میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات اثایہ، رویثہ اور عرج بھی مکہ کو جاتے ہوئے راستے میں آتے ہیں۔ (5) ”سائے میں“ ایک ٹیلے کی اوٹ میں پناہ لیے کھڑا تھا۔
حضرت (زید بن کعب) بہزی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مکہ مکرمہ کے ارادے سے نکلے۔ آپ احرام باندھے ہوئے تھے حتیٰ کہ جب وہ (لوگ) مقام روحاء میں پہنچے تو انھوں نے ایک زخمی جنگلی گدھا دیکھا۔ اس بات کا تذکرہ رسول اللہﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے کچھ نہ کہو۔ ہو سکتا ہے اسے زخمی کرنے والا آجائے۔“ اتنے میں وہ بہزی بھی رسو ل اللہﷺ کے پاس آگیا جس نے اسے زخمی کیا تھا۔ کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اس جنگلی گدھے کو آپ اپنی مرضی کے مطابق استعمال فرمائیے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو (تقسیم کرنے کا) حکم دیا تو انھوں نے اسے تمام ساتھیوں میں تقسیم کر دیا، پھر آپ چل پڑے حتیٰ کہ جب رویثہ اور عرج کے درمیان اثایہ مقام پر پہنچے تو ایک ہرن سائے میں سر جھکائے کھڑا آرام کر رہا تھا اور اس میں ایک تیر گھسا ہوا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو حکم دیا: اس کے پاس کھڑا رہ تاکہ کوئی شخص اسے پریشان نہ کرے حتیٰ کہ قافلہ اس سے آگے گزر جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”بہز“ یعنی قبیلہ بہز کا ایک فرد۔ ان کا نام زید بن کعب ہے اور یہ صحابی ہیں۔ (2) ”جنگلی گدھا“ یہ دراصل جنگلی گائے ہوتی ہے لیکن چونکہ اس کا پاؤں گدھے کی طرح خم دار ہوتا ہے، اس لیے اس معمولی مناسبت کی وجہ سے جنگلی گدھا کہہ دیا جاتا ہے۔ ورنہ حقیقتاً وہ گدھا نہیں ہوتا۔ تبھی توکھانا جائز ہے۔ (3) ”اسے کچھ نہ کہو“ محرم کو اجازت نہیں کہ وہ کسی جانور کا شکار کرے یا شکار کیے ہوئے کو پکڑے یا ذبح کرے، ہاں کوئی غیر محرم شخص اپنی مرضی سے اسے شکار کر کے بلکہ ذبح کر کے محرم کو دے دے تو وہ کھا سکتا ہے جیسا کہ اس بہزی نے کیا تھا، ورنہ وہ جانور کو اسی طرح رہنے دیں جیسا کہ بعد میں ہرن کے ساتھ ہوا۔ (4) روحاء مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب تیس چالیس میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات اثایہ، رویثہ اور عرج بھی مکہ کو جاتے ہوئے راستے میں آتے ہیں۔ (5) ”سائے میں“ ایک ٹیلے کی اوٹ میں پناہ لیے کھڑا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن کعب بہزی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکلے، آپ مکہ کا ارادہ کر رہے تھے، اور احرام باندھے ہوئے تھے یہاں تک کہ جب آپ روحاء پہنچے تو اچانک ایک زخمی نیل گائے دکھائی پڑا، رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے پڑا رہنے دو، ہو سکتا ہے اس کا مالک (شکاری) آ جائے“ (اور اپنا شکار لے جائے) اتنے میں بہزی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور وہی اس کے مالک (شکاری) تھے انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ گور نیل گائے آپ کے پیش خدمت ہے۱؎ آپ جس طرح چاہیں اسے استعمال کریں۔ تو رسول ﷺ نے ابوبکر ؓ کو حکم دیا، تو انہوں نے اس کا گوشت تمام ساتھیوں میں تقسیم کر دیا، پھر آپ آگے بڑھے، جب اثایہ پہنچے جو رویثہ اور عرج کے درمیان ہے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ہرن اپنا سر اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کے درمیان کئے ہوئے ہے، ایک سایہ میں کھڑا ہے اس کے جسم میں ایک تیر پیوست ہے، تو ان کا (یعنی بہزی کا) گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ وہاں کھڑا ہو جائے تاکہ کوئی شخص اسے چھیڑنے نہ پائے یہاں تک کہ آپ (مع اپنے اصحاب کے) آگے بڑھ جائیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی ہماری طرف سے آپ کو تحفہ ہے۔ ”اثایہ“ جحفہ سے مکہ کے راستہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ”رویثہ“ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ ”عرج“ ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ سے چند میل کی دوری پر واقع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Al Bahzi that the Messenger of Allah (ﷺ) set out for Makkah and was in Ihram. When they were in Ar Rawha’, they saw a wounded onager. Mention of that was made to the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: “Leave it, for soon its owner will come.” Then Al-Bahzi, who was its owner, came to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: “Messenger of Allah (ﷺ), it is up to you what you want to do with this onager.” The Messenger of Allah (ﷺ) commanded Abu Bakr (RA) to share it out among the company, then he moved on, and when he was in Al Uthayah, between Ar-Ruwaythah and Al-’Arj, they saw a gazelle sleeping in the shade with an arrow in it. It was said that the Messenger of Allah (ﷺ) told a man to stand by it and not let anyone disturb it until everyone had passed by.” (Sahih)