Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Prohibiton Of That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2842.
حضرت عثمان بن عفان ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”محرم نہ اپنا نکاح کرے، نہ نکاح کا پیغام بھیجے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔“
تشریح:
یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: ۱۴۰۹) لہٰذا قطعاً صحیح ہے، نیز صریح قولی روایت ہے جو اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔ اس کی کوئی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی، لہٰذا جمہور اہل حدیث وفقہاء نے اسی کو اختیار فرمایا ہے، نیز ہم رسول اللہﷺ کے فرمان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ظاہر کے مطابق صحیح بھی مان لیا جائے، تب بھی وہ فعلی روایت ہے اور فعل میں کئی احتمالات ہو سکتے ہیں۔ فعل نبیﷺ کا خاصہ بھی ہو سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ غلط فہمی کا امکان بھی فعل میں زیادہ ہے بجائے قولی روایت کے۔ نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی تاویل بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث: ۲۸۴۰ کے فائدے میں وضاحت ہے۔ احناف نے اس مقام میں جمہور اہل علم کے خلاف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے محرم کے لیے نکاح کو جائز قرار دیا ہے اور یہ تاویل کی ہے کہ نہی والی حدیث میں نکاح سے مراد جماع ہے مگر بعد والے الفاظ کے معنیٰ کیا ہوں گے: ”نہ نکاح کا پیغام بھیجے، نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔“ کیا یہاں نکاح کے معنیٰ جماع ہو سکتے ہیں اور کیسے؟ بینوا توجروا، تاویل تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی چاہیے تاکہ سب احادیث پر عمل ہو سکے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں، حدیث: ۲۸۴۰)
حضرت عثمان بن عفان ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”محرم نہ اپنا نکاح کرے، نہ نکاح کا پیغام بھیجے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: ۱۴۰۹) لہٰذا قطعاً صحیح ہے، نیز صریح قولی روایت ہے جو اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔ اس کی کوئی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی، لہٰذا جمہور اہل حدیث وفقہاء نے اسی کو اختیار فرمایا ہے، نیز ہم رسول اللہﷺ کے فرمان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ظاہر کے مطابق صحیح بھی مان لیا جائے، تب بھی وہ فعلی روایت ہے اور فعل میں کئی احتمالات ہو سکتے ہیں۔ فعل نبیﷺ کا خاصہ بھی ہو سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ غلط فہمی کا امکان بھی فعل میں زیادہ ہے بجائے قولی روایت کے۔ نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی تاویل بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث: ۲۸۴۰ کے فائدے میں وضاحت ہے۔ احناف نے اس مقام میں جمہور اہل علم کے خلاف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے محرم کے لیے نکاح کو جائز قرار دیا ہے اور یہ تاویل کی ہے کہ نہی والی حدیث میں نکاح سے مراد جماع ہے مگر بعد والے الفاظ کے معنیٰ کیا ہوں گے: ”نہ نکاح کا پیغام بھیجے، نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔“ کیا یہاں نکاح کے معنیٰ جماع ہو سکتے ہیں اور کیسے؟ بینوا توجروا، تاویل تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی چاہیے تاکہ سب احادیث پر عمل ہو سکے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں، حدیث: ۲۸۴۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”محرم نہ اپنا نکاح کرے، نہ شادی کا پیغام بھیجے اور نہ ہی کسی دوسرے کا نکاح کرائے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Uthman bin ‘Affan (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The Muhrim should not get married, or propose marriage, or arrange a marriage for someone else.” (Sahih)