Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Recting Poetry In The Haram And Walking In Fornt Of The Imam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2873.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ عمرہ قضا کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن رواحہ ؓ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ شعر پڑھ رہے تھے: ”اے کافروں کی اولاد! آپ کا راستہ چھوڑ دو۔ آج ہم آپ کے حکم سے تمھاری گردنیں ماریں گے اور ایسی ضرب لگائیں گے جو کھوپڑیوں کو گردنوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو دوست سے غافل کر دے گی۔“ حضرت عمر ؓ کہنے لگے: ابن رواحہ! رسول اللہﷺ کے سامنے اور حرم پاک میں شعر کہتے ہو؟ تونبیﷺ نے فرمایا: ”عمر! پڑھنے دو۔ یہ شعر ان کے لیے تیروں کی بوچھاڑ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔“
تشریح:
(1) ”عمرۃ القضاء“ یہ ۷ ہجری میں ادا کیا گیا۔ اسے عمرۃ القضاء اس لیے کہا گیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسے عمرے کا متفقہ طور پر فیصلہ ہوگیا تھا، اور مصالحت ہوگئی تھی کہ آئندہ سال مسلمان عمرہ کرنے آئیں گے اور تین دن تک مکہ مکرمہ میں بلا روک ٹوک رہیں گے، کفار مکہ شہر خالی کر دیں گے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ یہاں قضا ادا کے مقابلے میں نہیں کیونکہ اگر یہ عمرہ حدیبیہ کی قضا ہوتا تو پھر عمرہ حدیبیہ کو آپ کے عمروں میں شامل نہ کیا جاتا جبکہ اتفاق ہے کہ آپ نے چار عمرے ادا فرمائے۔ ان میں سے ایک حدیبیہ والا عمرہ ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار صرف کفار قریش کوشرمندہ کرنے کے لیے تھے ورنہ نبیﷺ لڑائی کے لیے گئے تھے، نہ لڑائی ممکن ہی تھی۔ شعراء کو اپنے جذبات کے اظہار کا حق ہوتا ہے اور عموماً شعراء کا کلام حقیقت پر محمول نہیں ہوتا، بلکہ ان کا مقصد اپنے جذبات کو تسکین دینا ہوتا ہے۔ ان میں مبالغہ ہوتا ہے اور انتہا پسندی عام ہوتی ہے۔ اسی لیے کفار مکہ نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ورنہ سنجیدگی میں ایسے الفاظ صلح کے خلاف تصور کیے جاتے ہیں۔ (3) حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہﷺ کے آگے آگے چلنا آپ کے احترام کے لیے تھا۔ کبھی آگے چلنا بھی احترام کی علامت ہوتا ہے۔ خصوصاً خدام آگے ہی چلا کرتے ہیں۔ (4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن رواحہ پر اعتراض شاید اس بنا پر ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ رسول اللہﷺ شدت استغراق کی وجہ سے عبداللہ بن رواحہ کے اشعار کی طرف توجہ نہیں فرما رہے ورنہ رسول اللہﷺ کی موجودگی کے باوجود اعتراض کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ عمرہ قضا کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن رواحہ ؓ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ شعر پڑھ رہے تھے: ”اے کافروں کی اولاد! آپ کا راستہ چھوڑ دو۔ آج ہم آپ کے حکم سے تمھاری گردنیں ماریں گے اور ایسی ضرب لگائیں گے جو کھوپڑیوں کو گردنوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو دوست سے غافل کر دے گی۔“ حضرت عمر ؓ کہنے لگے: ابن رواحہ! رسول اللہﷺ کے سامنے اور حرم پاک میں شعر کہتے ہو؟ تونبیﷺ نے فرمایا: ”عمر! پڑھنے دو۔ یہ شعر ان کے لیے تیروں کی بوچھاڑ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”عمرۃ القضاء“ یہ ۷ ہجری میں ادا کیا گیا۔ اسے عمرۃ القضاء اس لیے کہا گیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسے عمرے کا متفقہ طور پر فیصلہ ہوگیا تھا، اور مصالحت ہوگئی تھی کہ آئندہ سال مسلمان عمرہ کرنے آئیں گے اور تین دن تک مکہ مکرمہ میں بلا روک ٹوک رہیں گے، کفار مکہ شہر خالی کر دیں گے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ یہاں قضا ادا کے مقابلے میں نہیں کیونکہ اگر یہ عمرہ حدیبیہ کی قضا ہوتا تو پھر عمرہ حدیبیہ کو آپ کے عمروں میں شامل نہ کیا جاتا جبکہ اتفاق ہے کہ آپ نے چار عمرے ادا فرمائے۔ ان میں سے ایک حدیبیہ والا عمرہ ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار صرف کفار قریش کوشرمندہ کرنے کے لیے تھے ورنہ نبیﷺ لڑائی کے لیے گئے تھے، نہ لڑائی ممکن ہی تھی۔ شعراء کو اپنے جذبات کے اظہار کا حق ہوتا ہے اور عموماً شعراء کا کلام حقیقت پر محمول نہیں ہوتا، بلکہ ان کا مقصد اپنے جذبات کو تسکین دینا ہوتا ہے۔ ان میں مبالغہ ہوتا ہے اور انتہا پسندی عام ہوتی ہے۔ اسی لیے کفار مکہ نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ورنہ سنجیدگی میں ایسے الفاظ صلح کے خلاف تصور کیے جاتے ہیں۔ (3) حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہﷺ کے آگے آگے چلنا آپ کے احترام کے لیے تھا۔ کبھی آگے چلنا بھی احترام کی علامت ہوتا ہے۔ خصوصاً خدام آگے ہی چلا کرتے ہیں۔ (4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن رواحہ پر اعتراض شاید اس بنا پر ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ رسول اللہﷺ شدت استغراق کی وجہ سے عبداللہ بن رواحہ کے اشعار کی طرف توجہ نہیں فرما رہے ورنہ رسول اللہﷺ کی موجودگی کے باوجود اعتراض کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عمرہ قضاء میں مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ ؓ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» ”اے کافروں کی اولاد! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ (کوئی مزاحمت اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالو)، ورنہ آج ہم ان پر نازل شدہ حکم کے مطابق تمہیں ایسی مار ماریں گے جو سروں کو ان کی خواب گاہوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو اپنے دوست سے غافل کر دے گی، تو عمر ؓ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! رسول اللہ ﷺ کے سامنے اور اللہ عزوجل کے حرم میں تم شعر پڑھتے ہو؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”چھوڑو ان کو (پڑھنے دو) کیونکہ یہ ان پر تیر سے زیادہ اثرانداز ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Anas that the Prophet (ﷺ) entered Makkah during the ‘Umratul-Qaza’, and ‘Abdullah bin Rawahah was walking in front of him and saying: Get out of his way, you unbelievers, make way. Today we will fight about its revelation with blows that will remove heads from shoulders and make friend unmindful of friend. ‘Umar said to him: “Ibn Rawahah! In front of the Messenger of Allah (ﷺ) and in the Sanctuary of Allah, the Mighty and Sublime, you recite poetry?” The Prophet (ﷺ), said: “Let him do so, for what he is saying is more effective than shooting arrows at them.” (Hasan)