Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Welcoming The Pilgrims)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2893.
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو حضرت ابن رواحہ ؓ آپ کے آگے آگے یہ شعر پڑھتے جا رہے تھے: ”اے کافروں کی اولاد! آپ کا راستہ چھوڑ دو۔ آج ہم آپ کے حکم پر تمھیں ایسی ضرب لگائیں گے جو کھوپڑیوں کو گردنوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو جگری دوست سے غافل کر دے گی۔“ حضرت عمر ؓ فرمانے لگے: اے ابن رواحہ! تم اللہ تعالیٰ کے حرم میں اور رسول اللہﷺ کی موجودگی میں یہ اشعار کہتے ہو؟ تو نبیﷺ نے فرمایا: ”عمر! رہنے دو۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کا کلام ان کے لیے تیروں کی بوچھاڑ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔“
تشریح:
(1) یہ حدیث اور اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر ۲۸۷۶۔ (2) امام نسائی رحمہ اللہ شاید اس حدیث کو استقبال کے باب میں اس لیے لائے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا آپ کے آگے آگے چلنا اور اشعار پڑھنا استقبال ہی کی ایک صورت ہے۔ یا ممکن ہے مکے کے لوگ آپ کے استقبال کو آئے ہوں جیسا کہ اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔ (3) ”آپ کا راستہ چھوڑ دو“ ویسے آپ تو اس وقت عمرے کی نیت سے گئے تھے۔ گویا استقبال کے لحاظ سے حج اور عمرہ برابر ہیں۔
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو حضرت ابن رواحہ ؓ آپ کے آگے آگے یہ شعر پڑھتے جا رہے تھے: ”اے کافروں کی اولاد! آپ کا راستہ چھوڑ دو۔ آج ہم آپ کے حکم پر تمھیں ایسی ضرب لگائیں گے جو کھوپڑیوں کو گردنوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو جگری دوست سے غافل کر دے گی۔“ حضرت عمر ؓ فرمانے لگے: اے ابن رواحہ! تم اللہ تعالیٰ کے حرم میں اور رسول اللہﷺ کی موجودگی میں یہ اشعار کہتے ہو؟ تو نبیﷺ نے فرمایا: ”عمر! رہنے دو۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کا کلام ان کے لیے تیروں کی بوچھاڑ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث اور اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر ۲۸۷۶۔ (2) امام نسائی رحمہ اللہ شاید اس حدیث کو استقبال کے باب میں اس لیے لائے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا آپ کے آگے آگے چلنا اور اشعار پڑھنا استقبال ہی کی ایک صورت ہے۔ یا ممکن ہے مکے کے لوگ آپ کے استقبال کو آئے ہوں جیسا کہ اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔ (3) ”آپ کا راستہ چھوڑ دو“ ویسے آپ تو اس وقت عمرے کی نیت سے گئے تھے۔ گویا استقبال کے لحاظ سے حج اور عمرہ برابر ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب عمرہ قضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے اور ابن رواحہ آپ کے آگے تھے اور کہہ رہے تھے: «خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَى تَأْوِيلِهِ ضَرَبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ» ”اے کافروں کی اولاد! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ،۱؎ ان کے اشارے پر آج ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو تمہارے سروں کو گردنوں سے اڑا دے گی اور دوست کو اس کے دوست سے غافل کر دے گی“، عمر ؓ نے کہا: ابن رواحہ ؓ ! تم اللہ کے حرم میں اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسے شعر پڑھتے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چھوڑو انہیں (پڑھنے دو) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ان کے یہ اشعار کفار پر تیر لگنے سے بھی زیادہ سخت ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : باب پر استدلال ابن رواحہ کے اسی قول «خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ» سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas said: “The Prophet (ﷺ) entered Makkah during ‘Umratul-Qada’ and Ibn Rawahah went before him, saying: Get out of his way, you unbelievers, make way. Today we will fight about its revelation with blows that will remove heads from shoulders And make friend unmindful of friend. ‘Umar said to him: “Ibn Rawahah! In the Sanctuary of Allah and in front of the Messenger of Allah (ﷺ) you recite poetry?” The Prophet (ﷺ) said: “Let him do that, for by the One in Whose Hand is my soul, his words are harder for them than being shot with arrows.” (Hasan)