Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Reason Why The Prophet Hastened When Performing Tawaf Around The House)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2945.
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب نبیﷺ اور آپ کے صحابہ (عمرۃ القضاء میں) مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مشرکین کہنے لگے: انھیں یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے اور ان کی حالت بہت پتلی ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو اس بات کی اطلاع فرما دی تو آپ نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ رمل کریں، البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آہستہ چلیں کیونکہ مشرکین حطیم کی جانب (شمالی جانب) تھے۔ تو مشرکین (انھیں رمل کرتے دیکھ کر) کہنے لگے: یہ تو بہت زیادہ قوی ہیں۔
تشریح:
(1) تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: ۲۹۴۳۔ اس وقت تو رمل کی یہی وجہ تھی، بعد میں اللہ تعالیٰ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ ادا پسند آگئی تو اسے مستقلاً حج اور عمرے کے طواف میں داخل کر دیا۔ (2) رمل کا یہ انداز اگرچہ فخر اور تکبر کا انداز ہے، اور اللہ تعالیٰ کو فخر و تکبر پسند نہیں، لیکن کفار کے مقابلے میں میدان جنگ میں اکڑ کر چلنے والا مسلمان اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا لگتا ہے۔ رمل بھی کافروں کو دکھانے بلکہ ڈرانے کے لیے تھا، لہٰذا اس میں بھی اکڑ کر چلنا اللہ تعالیٰ کو پسند آیا۔ بعد میں یہ سنت جاری ہوگئی جس طرح صفا مروہ کے درمیان سعی اور منیٰ میں قربانی بھی حضرت حاجرہ اور حضرت ابراہیم رحمہم اللہ کی یادگار ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں اور حج اور عمرے کا حصہ بنا دی گئیں۔ (3) دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہونے کے لیے اہل اسلام کو بھرپور تیار رکھنی چاہیے اور ہر میدان میں ترقی کی اعلیٰ ترین منازل حاصل کرنی چاہئیں، وہ تعلیم کا میدان ہو یا جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحے کا۔ اپنے دفاع کے لیے جسمانی تربیت اور جنگی مشقیں کرتے رہنا چاہیے اور دشمن کو مرعوب رکھنے کے لیے ان صلاحیتوں کا گاہے گاہے اظہار کرتے رہنا بھی ضروری ہے تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے رہے اور وہ کوئی حماقت کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه هو ومسلم) .
إسناده: حدثنا مسدد: ثنا حماد بن زيد عن أيوب عن سعيد بن جبير عن
ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير مسدد فهو على شرط
البخاري، وقد توبع كما يأتي.
والحديث أخرجه البخاري (3/368 و 7/410) ، ومسلم (4/65) ، والنسائي
(2/39) ، والبيهقي (5/82) ، وأحمد (1/290 و 295) من طرق أخرى عن حماد
ابن زيد... به.
وتابعه حماد بن سلمة عن أيوب ... به نحوه؛ بلفظ:
فلما قدم رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لعامه الذي اعتمر فيه؛ قال لأصحابه:
" ارملوا بالبيت ثلاثاً؛ ليرى المشركون قوتكم ". فلما رملوا قالت قريش: ما
وهنتهم!
أخرجه أحمد (1/306 و 373) بسند جيد، وعلقه البخاري، ووصله الإسماعيلي.
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب نبیﷺ اور آپ کے صحابہ (عمرۃ القضاء میں) مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مشرکین کہنے لگے: انھیں یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے اور ان کی حالت بہت پتلی ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو اس بات کی اطلاع فرما دی تو آپ نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ رمل کریں، البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آہستہ چلیں کیونکہ مشرکین حطیم کی جانب (شمالی جانب) تھے۔ تو مشرکین (انھیں رمل کرتے دیکھ کر) کہنے لگے: یہ تو بہت زیادہ قوی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: ۲۹۴۳۔ اس وقت تو رمل کی یہی وجہ تھی، بعد میں اللہ تعالیٰ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ ادا پسند آگئی تو اسے مستقلاً حج اور عمرے کے طواف میں داخل کر دیا۔ (2) رمل کا یہ انداز اگرچہ فخر اور تکبر کا انداز ہے، اور اللہ تعالیٰ کو فخر و تکبر پسند نہیں، لیکن کفار کے مقابلے میں میدان جنگ میں اکڑ کر چلنے والا مسلمان اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا لگتا ہے۔ رمل بھی کافروں کو دکھانے بلکہ ڈرانے کے لیے تھا، لہٰذا اس میں بھی اکڑ کر چلنا اللہ تعالیٰ کو پسند آیا۔ بعد میں یہ سنت جاری ہوگئی جس طرح صفا مروہ کے درمیان سعی اور منیٰ میں قربانی بھی حضرت حاجرہ اور حضرت ابراہیم رحمہم اللہ کی یادگار ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں اور حج اور عمرے کا حصہ بنا دی گئیں۔ (3) دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہونے کے لیے اہل اسلام کو بھرپور تیار رکھنی چاہیے اور ہر میدان میں ترقی کی اعلیٰ ترین منازل حاصل کرنی چاہئیں، وہ تعلیم کا میدان ہو یا جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحے کا۔ اپنے دفاع کے لیے جسمانی تربیت اور جنگی مشقیں کرتے رہنا چاہیے اور دشمن کو مرعوب رکھنے کے لیے ان صلاحیتوں کا گاہے گاہے اظہار کرتے رہنا بھی ضروری ہے تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے رہے اور وہ کوئی حماقت کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب (فتح کے موقع پر) مکہ تشریف لائے تو مشرکین کہنے لگے: انہیں یثرب یعنی مدینہ کے بخار نے لاغر و کمزور کر دیا ہے، اور انہیں وہاں شر پہنچا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع دی تو آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ اکڑ کر کندھے ہلاتے ہوئے تیز چلیں، اور دونوں رکنوں (یعنی رکن یمانی اور حجر اسود) کے درمیان عام چال چلیں، اور مشرکین اس وقت حطیم کی جانب ہوتے تو انہوں نے ( ان کو اکڑ کر کندھے اچکاتے ہوئے تیز چلتے ہوئے دیکھ کر) کہا: یہ تو یہاں سے بھی زیادہ مضبوط اور قوی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “When the Prophet (ﷺ) and his Companions came to Makkah, the idolaters said: ‘The fever of Yathrib has weakened them, and they have suffered a great deal because of it.’ Allah informed His Prophet (ﷺ) about that, so he told his Companions to walk rapidly, and to walk (at a normal pace) between the two corners, and the idolaters were on the side of the Stone. They said: ‘They are stronger than such and such.” (Sahih)