Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Reason Why The Prophet Hastened When Performing Tawaf Around The House)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2946.
حضرت زبیر بن عدی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر ؓ سے حجر اسود کو چھونے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ وہ آدمی کہنے لگا: فرمائیے اگر بہت بھیڑ ہو اور میں بے بس ہو جاؤں تو؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اپنا ”فرمائیے“ یمن ہی میں رہنے دے۔ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ حجر اسود کو چھوتے اور بوسہ دیتے تھے۔
تشریح:
(1) سوال کرنے والا شخص یمنی تھا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے دوسرے جواب سے ظاہر ہوتا ہے۔ (2) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ سنت کی ادائیگی میں بساط بھر کوشش کرنی چاہیے۔ حیلے بہانوں سے اس سے فرار کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے ہر کام میں کچھ نہ کچھ محنت اور مشقت بلکہ تکلیف لازمی چیز ہے، لہٰذا اس سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر اور حوصلے کے ساتھ لگے رہیں، مقصد میں کامیابی ہوگی اس سلسلے میں جو وقت اور تکلیف صرف ہوں گے، اس کا ثواب ملے گا، البتہ حجر اسود کی تقبیل کی خاطر کسی کو ایذا نہ پہنچائے، دھکم پیل نہ کرے بلکہ نرمی اور محنت سے مقصود حاصل کرے، ہاں اگر بغیر دھکم پیل یا مار دھاڑ کے تقبیل ممکن نہ ہو تو رہنے دے۔ یہ کوئی فرض نہیں جیسے کہ حدیث نمبر ۲۹۴۱ میں مذکور ہے۔ (3) اس روایت کا متعلقہ باب سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ یہ روایت دراصل آئندہ باب سے متعلق ہے۔ یہ کسی ناسخ (ناقل) کے تصرف سے ہو گیا ہے۔
حضرت زبیر بن عدی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر ؓ سے حجر اسود کو چھونے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ وہ آدمی کہنے لگا: فرمائیے اگر بہت بھیڑ ہو اور میں بے بس ہو جاؤں تو؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اپنا ”فرمائیے“ یمن ہی میں رہنے دے۔ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ حجر اسود کو چھوتے اور بوسہ دیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) سوال کرنے والا شخص یمنی تھا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے دوسرے جواب سے ظاہر ہوتا ہے۔ (2) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ سنت کی ادائیگی میں بساط بھر کوشش کرنی چاہیے۔ حیلے بہانوں سے اس سے فرار کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے ہر کام میں کچھ نہ کچھ محنت اور مشقت بلکہ تکلیف لازمی چیز ہے، لہٰذا اس سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر اور حوصلے کے ساتھ لگے رہیں، مقصد میں کامیابی ہوگی اس سلسلے میں جو وقت اور تکلیف صرف ہوں گے، اس کا ثواب ملے گا، البتہ حجر اسود کی تقبیل کی خاطر کسی کو ایذا نہ پہنچائے، دھکم پیل نہ کرے بلکہ نرمی اور محنت سے مقصود حاصل کرے، ہاں اگر بغیر دھکم پیل یا مار دھاڑ کے تقبیل ممکن نہ ہو تو رہنے دے۔ یہ کوئی فرض نہیں جیسے کہ حدیث نمبر ۲۹۴۱ میں مذکور ہے۔ (3) اس روایت کا متعلقہ باب سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ یہ روایت دراصل آئندہ باب سے متعلق ہے۔ یہ کسی ناسخ (ناقل) کے تصرف سے ہو گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زبیر بن عدی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عمر سے حجر اسود کے استلام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے چھوتے اور چومتے دیکھا ہے، اس آدمی نے کہا: اگر میرے اس تک پہنچنے میں بھیڑ آڑے آ جائے یا میں مغلوب ہو جاؤں اور نہ جا پاؤں تو؟ ابن عمر ؓ نے کہا: «أرأیت» ۱؎ کو تم یمن میں رکھو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے چھوتے اور چومتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «أَرَأَيْتَ» مطلب یہ ہے کہ ”اگر مگر“ چھوڑو جسے سنت رسول کی جستجو ہو اسے اس طرح کے سوالات زیب نہیں دیتے یہ تو تارکین سنت کا شیوہ ہے، سنت رسول کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے جہاں تک ممکن ہو کوشش کرنی چاہیئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Az Zubair bin ‘Arabi'y said: “A man asked Ibn ‘Umar about touching the Black Stone and he said: ‘I saw the Messenger of Allah (ﷺ) touching it and kissing it.’ The man said: ‘What if it is too crowded and I am overwhelmed?’ Ibn ‘Umar (RA), said: ‘Leave your “what if” in Yemen! I saw the Messenger of Allah (ﷺ) touching it and kissing it.” (Sahih)