باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’ہر مسجد جاتے وقت زینت اختیار کرو۔‘‘ کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The saying of Allah, The Mighty And Sublime: "Take Your Adornment To Every Masjid")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2958.
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے ساتھ آیا جبکہ انھیں رسول اللہﷺ نے مکے والوں کی طرف سے براء ت کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ شاگرد نے کہا: آپ کیا اعلان فرماتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہم اعلان کرتے تھے کہ مومن کے علاوہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکے گا۔ جس شخص کا رسول اللہﷺ کے ساتھ صلح کا کوئی معاہدہ ہے تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔ جب چار ماہ گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ مشرکین (کے ساتھ ہر قسم کے معاہدہ صلح) سے لا تعلق ہوں گے اور کوئی مشرک اس سال کے بعد حج کرنے نہیں آئے گا۔ (حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا:) میں یہ اعلانات کرتا رہا حتیٰ کہ میری آواز بیٹھ گئی۔
تشریح:
(1) یہ حدیث سابقہ حدیث ہی کی تفصیل ہے۔ اس موقع پر امیر حج تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر ”براء ت کا اعلان“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصی ذمے داری تھی کیونکہ اس قبائلی دور میں عہد کے متعلق کوئی اعلان نبیﷺ کا خاندانی شخص ہی کر سکتا تھا ورنہ مشرکین اسے معتبر نہ سمجھتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آپ کے ساتھ رشتے داری سے سب لوگ واقف تھے، لہٰذا اس اعلان کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا گیا۔ دیگر اعلانات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی سے کروائے، لہٰذا سابقہ حدیث اور اس حدیث میں کوئی اختلاف نہیں۔ (2) ”چار ماہ“ ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلان سے چار ماہ شمار ہوں گے لیکن بعض محققین نے براء ت کی آیت کے نزول سے چار ماہ شمار کیے ہیں، یعنی شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ آیت کے آئندہ الفاظ ﴿فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ…﴾(التوبة: ۹: ۵) اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی بات صحیح ہے۔ (3) اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہر عہد کی مدت چار ماہ مقرر فرما دی لیکن یہ بات درست نہیں۔ یا تو راوی کو غلطی لگی یا ضرورت سے زیادہ اختصار ہوگیا۔ دیگر احادیث میں وضاحت ہے کہ اعلان یوں تھا: ”جس شخص کا اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو چکا ہے تو وہ اپنی مقررہ مدت تک برقرار ہے۔ اور جس کے ساتھ آپ کا کوئی عہد نہیں (یا جس کی مدت مقرر نہیں) وہ چار ماہ تک امن میں ہے۔“ دیکھیے: (جامع الترمذي، باب ومن سورة التوبة، حدیث: ۳۰۹۲) مزید ملاحظہ ہو: (تفسیر ابن کثیر، سورۂ توبة، آیت: ۲، تحت الآیة﴿فَسِيحُوا فِي الأرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ﴾ یعنی اس کے بعد مشرکین سے عام لڑائی ہے۔ ویسے بھی یہ بعید ہے کہ رسول اللہﷺ کسی سے کیے ہوئے عہد کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیں۔ رسول اللہﷺ تو عہد کی بہت زیادہ پاسدار فرمانے والے تھے۔ ﷺ
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے ساتھ آیا جبکہ انھیں رسول اللہﷺ نے مکے والوں کی طرف سے براء ت کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ شاگرد نے کہا: آپ کیا اعلان فرماتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہم اعلان کرتے تھے کہ مومن کے علاوہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکے گا۔ جس شخص کا رسول اللہﷺ کے ساتھ صلح کا کوئی معاہدہ ہے تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔ جب چار ماہ گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ مشرکین (کے ساتھ ہر قسم کے معاہدہ صلح) سے لا تعلق ہوں گے اور کوئی مشرک اس سال کے بعد حج کرنے نہیں آئے گا۔ (حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا:) میں یہ اعلانات کرتا رہا حتیٰ کہ میری آواز بیٹھ گئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث سابقہ حدیث ہی کی تفصیل ہے۔ اس موقع پر امیر حج تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر ”براء ت کا اعلان“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصی ذمے داری تھی کیونکہ اس قبائلی دور میں عہد کے متعلق کوئی اعلان نبیﷺ کا خاندانی شخص ہی کر سکتا تھا ورنہ مشرکین اسے معتبر نہ سمجھتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آپ کے ساتھ رشتے داری سے سب لوگ واقف تھے، لہٰذا اس اعلان کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا گیا۔ دیگر اعلانات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی سے کروائے، لہٰذا سابقہ حدیث اور اس حدیث میں کوئی اختلاف نہیں۔ (2) ”چار ماہ“ ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلان سے چار ماہ شمار ہوں گے لیکن بعض محققین نے براء ت کی آیت کے نزول سے چار ماہ شمار کیے ہیں، یعنی شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ آیت کے آئندہ الفاظ ﴿فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ…﴾(التوبة: ۹: ۵) اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی بات صحیح ہے۔ (3) اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہر عہد کی مدت چار ماہ مقرر فرما دی لیکن یہ بات درست نہیں۔ یا تو راوی کو غلطی لگی یا ضرورت سے زیادہ اختصار ہوگیا۔ دیگر احادیث میں وضاحت ہے کہ اعلان یوں تھا: ”جس شخص کا اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو چکا ہے تو وہ اپنی مقررہ مدت تک برقرار ہے۔ اور جس کے ساتھ آپ کا کوئی عہد نہیں (یا جس کی مدت مقرر نہیں) وہ چار ماہ تک امن میں ہے۔“ دیکھیے: (جامع الترمذي، باب ومن سورة التوبة، حدیث: ۳۰۹۲) مزید ملاحظہ ہو: (تفسیر ابن کثیر، سورۂ توبة، آیت: ۲، تحت الآیة﴿فَسِيحُوا فِي الأرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ﴾ یعنی اس کے بعد مشرکین سے عام لڑائی ہے۔ ویسے بھی یہ بعید ہے کہ رسول اللہﷺ کسی سے کیے ہوئے عہد کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیں۔ رسول اللہﷺ تو عہد کی بہت زیادہ پاسدار فرمانے والے تھے۔ ﷺ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب ؓ کے ساتھ آیا جس وقت رسول اللہ ﷺ نے انہیں اہل مکہ کے پاس سورۃ براءت دے کر بھیجا محرر بن ابی ہریرہ نے اپنے والد سے پوچھا: آپ لوگ کیا پکارتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہم اعلان کرتے تھے کہ جنت میں سوائے مومن کے کوئی نہ جائے گا، اور ننگا ہو کر کوئی بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، اور جس شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کوئی عہد و معاہدہ ہو تو اس کی مدت و مہلت چار مہینے کی ہے، اور جب چار مہینے گزر جائیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں سے بری ہو گا، اور اس کا رسول بھی، اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کر سکے گا۔ میں (یہ باتیں) لوگوں کو پکار پکار کر بتا رہا تھا یہاں تک کہ میری آواز بیٹھ گئی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Muharrar bin Abi Hurairah that his father said: “I came with ‘Ali Ibn Abi Talib (RA) when the Messenger of Allah (ﷺ) sent him to the people of Makkah with news of the dissolution of treaty obligations.” He said: “How did you announce it?” He said: “We announced that no one would enter Paradise but a believing soul, no one was to circumambulate the House naked; whoever had a treaty with the Messenger of Allah (ﷺ) then for its period, or, it extended to four months, and when four months had passed, and that Allah is free from (all) obligations to the idolators and so is His Messenger. No idolator was to perform Hajj after this year. I kept on announcing it until my voice grew hoarse.” (Hasan)