باب: یوم عرفہ کی فضیلت کے بارے میں جو ذکر کیا گیا ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: What Was Narrated Concerning The Day Of Arafat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3002.
حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا: اگر یہ آیت: {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ} ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے اس دن کا بخوبی علم ہے جس دن یہ آیت اتری بلکہ اس رات کا بھی جس رات یہ اتری۔ وہ جمعے کی رات تھی اور ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ عرفات میں تھے۔
تشریح:
(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے تو یہ دن پہلے ہی سے عید تھا بلکہ دو وجوہ سے کیونکہ اس دن جمعہ بھی تھا اور حج بھی۔ جمعہ تو ہر ہفتہ کی عید ہے اور یوم عرفہ سالانہ، یعنی ہم اس تاریخ کو بھی عید مناتے ہیں (یعنی ۹ ذوالحجہ کو) اور اس دن کو بھی، یعنی جمعہ المبارک کو، لہٰذا ہمیں الگ طور پر اس آیت کے نزول کا جشن منانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اسلام کا مزاج جشن منانے والا نہیں بلکہ عبادت کا ہے اور وہ پہلے سے ہو رہی ہے۔ (2) ”جمعے کی رات“ ممکن ہے آنے والی رات کو قرب کی بنا پر جمعے کی رات کہہ دیا ہو ورنہ یہ آیت تو جمعے کے دن اتری ہے، ہاں رات قریب تھی، اس لیے نسبت کر دی۔ واللہ أعلم
حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کہا: اگر یہ آیت: {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ} ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے اس دن کا بخوبی علم ہے جس دن یہ آیت اتری بلکہ اس رات کا بھی جس رات یہ اتری۔ وہ جمعے کی رات تھی اور ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ عرفات میں تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے تو یہ دن پہلے ہی سے عید تھا بلکہ دو وجوہ سے کیونکہ اس دن جمعہ بھی تھا اور حج بھی۔ جمعہ تو ہر ہفتہ کی عید ہے اور یوم عرفہ سالانہ، یعنی ہم اس تاریخ کو بھی عید مناتے ہیں (یعنی ۹ ذوالحجہ کو) اور اس دن کو بھی، یعنی جمعہ المبارک کو، لہٰذا ہمیں الگ طور پر اس آیت کے نزول کا جشن منانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اسلام کا مزاج جشن منانے والا نہیں بلکہ عبادت کا ہے اور وہ پہلے سے ہو رہی ہے۔ (2) ”جمعے کی رات“ ممکن ہے آنے والی رات کو قرب کی بنا پر جمعے کی رات کہہ دیا ہو ورنہ یہ آیت تو جمعے کے دن اتری ہے، ہاں رات قریب تھی، اس لیے نسبت کر دی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے عمر ؓ سے کہا: اگر یہ آیت: «اليوم أكملت لكم دينكم» ہمارے یہاں اتری ہوتی تو جس دن یہ اتری اس دن کو ہم عید (تہوار) کا دن بنا لیتے۔ عمر ؓ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کس دن اتری ہے، جس رات ۱؎ یہ آیت نازل ہوئی وہ جمعہ کی رات تھی، اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں تھے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : شاید اس سے مراد سنیچر کی رات ہے جمعہ کی طرف اس کی نسبت اس وجہ سے کر دی گئی ہے کہ وہ جمعہ سے متصل تھی، مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن شام کو نازل ہوئی اس طرح اللہ تعالیٰ نے دو عیدیں اس میں ہمارے لیے جمع کر دیں ایک جمعہ کی عید دوسری عرفہ کی عید۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Tariq bin Shihab said: A Jew said to `Umar: "If this Verse had been revealed to us, we would have taken it as a festival (Eid): 'This day, I have perfected your religion for you.'" Umar said: "I know the day when it was revealed and the night on which it was revealed: a Friday night when we were with Messenger of Allah in Arafat.