باب: یوم عرفہ کی فضیلت کے بارے میں جو ذکر کیا گیا ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: What Was Narrated Concerning The Day Of Arafat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3003.
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”یوم عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ زیادہ غلام لونڈیاں آگ سے آزاد کرتا ہو۔ اس دن اللہ تعالیٰ مزید قریب آجاتا ہے، پھر اپنے ان بندوں (حجاج کرام) کی بنا پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے: میرے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟“ ابوعبدالرحمن (امام نسائی ؓ) بیان کرتے ہیں کہ بہت ممکن ہے کہ (سند میں ابن المسیب کے شاگرد) یونس سے مراد یونس بن یوسف ہوں جن سے امام مالک ؓ روایت کرتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ أعلم
تشریح:
(1) ”غلام لونڈیاں“ مراد عام مرد و عورت ہیں کیونکہ سب انسان اللہ تعالیٰ کے لیے غلام لونڈیاں ہی ہیں۔ (2) ”آگ سے آزاد“ یعنی جن کے لیے گناہوں کی وجہ سے آگ مقدر تھی، اللہ تعالیٰ ان کے لیے معافی فرماتا ہے۔ نتیجتاً وہ قیامت کے دن آگ سے بچ جائیں گے۔ چونکہ معافی یوم عرفہ کو ہوتی ہے، اس لیے آزادی کی نسبت اس کی طرف کر دی ورنہ اصل آزادی تو قیامت کے دن ہوگی۔ ممکن ہے فوت شدگان کو بھی اللہ تعالیٰ اس دن عذاب قبر سے معافی اور آزادی عطا فرماتا ہو۔ (3) ”مزید قریب“ اللہ تعالیٰ اپنے افعال و صفات میں مختار ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے قریب آنے میں کوئی اشکال نہیں جیسے اس کی شان کو لائق ہے۔ بعض حضرات نے چند مزعومہ اور بے بنیاد اصولوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو اتنا مجبور و بے بس (معاذ اللہ) بنا رکھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی کرنے کی ممنوع سمجھتے ہیں۔ ہمارا اللہ گناہ گاروں کا رب اور بے بسوں کا رب، سب مخلوق کا رب اتنا بے بس اور مجبور نہیں ہو سکتا کہ نہ وہ کسی پر ترس کھا سکے، نہ کسی سے سرگوشی کر سکے، نہ کلام کر سکے، نہ خوش ہو سکے، نہ قریب آسکے اور نہ عرش پر فروخش ہو سکے، لہٰذا تاویلات کی کوئی ضرورت نہیں، ہاں جب اللہ تعالیٰ قریب ہوگا تو رحمت الٰہی خواہ مخواہ قریب ہوگی۔ اس کا انکار نہیں۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”یوم عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ زیادہ غلام لونڈیاں آگ سے آزاد کرتا ہو۔ اس دن اللہ تعالیٰ مزید قریب آجاتا ہے، پھر اپنے ان بندوں (حجاج کرام) کی بنا پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے: میرے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟“ ابوعبدالرحمن (امام نسائی ؓ) بیان کرتے ہیں کہ بہت ممکن ہے کہ (سند میں ابن المسیب کے شاگرد) یونس سے مراد یونس بن یوسف ہوں جن سے امام مالک ؓ روایت کرتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ أعلم
حدیث حاشیہ:
(1) ”غلام لونڈیاں“ مراد عام مرد و عورت ہیں کیونکہ سب انسان اللہ تعالیٰ کے لیے غلام لونڈیاں ہی ہیں۔ (2) ”آگ سے آزاد“ یعنی جن کے لیے گناہوں کی وجہ سے آگ مقدر تھی، اللہ تعالیٰ ان کے لیے معافی فرماتا ہے۔ نتیجتاً وہ قیامت کے دن آگ سے بچ جائیں گے۔ چونکہ معافی یوم عرفہ کو ہوتی ہے، اس لیے آزادی کی نسبت اس کی طرف کر دی ورنہ اصل آزادی تو قیامت کے دن ہوگی۔ ممکن ہے فوت شدگان کو بھی اللہ تعالیٰ اس دن عذاب قبر سے معافی اور آزادی عطا فرماتا ہو۔ (3) ”مزید قریب“ اللہ تعالیٰ اپنے افعال و صفات میں مختار ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے قریب آنے میں کوئی اشکال نہیں جیسے اس کی شان کو لائق ہے۔ بعض حضرات نے چند مزعومہ اور بے بنیاد اصولوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو اتنا مجبور و بے بس (معاذ اللہ) بنا رکھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی کرنے کی ممنوع سمجھتے ہیں۔ ہمارا اللہ گناہ گاروں کا رب اور بے بسوں کا رب، سب مخلوق کا رب اتنا بے بس اور مجبور نہیں ہو سکتا کہ نہ وہ کسی پر ترس کھا سکے، نہ کسی سے سرگوشی کر سکے، نہ کلام کر سکے، نہ خوش ہو سکے، نہ قریب آسکے اور نہ عرش پر فروخش ہو سکے، لہٰذا تاویلات کی کوئی ضرورت نہیں، ہاں جب اللہ تعالیٰ قریب ہوگا تو رحمت الٰہی خواہ مخواہ قریب ہوگی۔ اس کا انکار نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل عرفہ کے دن جتنے غلام اور لونڈیاں جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں کرتا، اس دن وہ اپنے بندوں سے قریب ہوتا ہے، اور ان کے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور پوچھتا ہے، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟۔“ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ہو سکتا ہے یہ یونس (جن کا اس روایت میں نام آیا ہے) یونس بن یوسف ہوں، جن سے مالک نے روایت کی ہے واللہ تعالیٰ أعلم۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that from Aishah that the Messenger of Allah said: "There is no day on which Allah, the Mighty and Sublime, frees more of his slaves, male and female, from the fire, than the day of Arafah. He comes close, then he boasts to the angels about them and say: 'What do these people want?'" (Sahih) Abdu Abdur-Rhamn (An-Nasai) said: It appears that Yunus bin Yusuf is the one who reported it from Malik and Allah, most High, Knows best.