تشریح:
(1) شاید حضرت عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ کو بروقت رسول اللہﷺ کے اعلان حج کا پتا نہ چلا ہو، بعد میں پتہ چلا تو چل پڑے۔ چونکہ تاخیر ہو چکی تھی، لہٰذا سیدھے عرفات آئے اور وہاں سے مزدلفہ پہنچے۔
(2) ”کسی ٹیلے یا پہاڑ“ یعنی جس کے بارے میں گمان تھا کہ یہاں ٹھہرنا بھی حج کا حصہ ہے کیونکہ حج پہلے سے عربوں میں معروف تھا اور وہ حج کیا کرتے تھے۔ اور وقوف عرفات متفق علیہ مسئلہ تھا، ورنہ یہ مطلب نہیں کہ بنو طے کے علاقے سے شروع ہو کر مزدلفے تک وہ ہر پہاڑ پر وقوف کرتے آئے تھے۔ یہ تو (عملاً) ناممکن بات ہے۔
(3) اگر کوئی شخص مزدلفہ میں رات کو نہ آسکے تو بعض علماء کے نزدیک اس کا حج نہیں ہوگا۔ لیکن درست یہ ہے کہ مزدلفہ میں وقوف، وجوب کی حیثیت رکھتا ہے، جیسا کہ بعض محققین کا موقف ہے۔ اور ادھر کم از کم نماز فجر ادا کرنا شرط کی حیثیت جیسا کہ عروہ بن مضرس کی دوسری صریح حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ اس میں وقوف عرفات اور پھر مزدلفہ میں نماز فجر پانے کے ساتھ اتمام حج کو مقید کیا گیا ہے جو نماز فجر کی مزدلفہ میں رکنیت کی دلیل ہے۔ جمہور کے نزدیک وقوف واجب ہے لیکن دم سے اس کی تلافی ہو جائے گی، مگر حدیث کے ظاہر الفاظ اس کے خلاف ہیں۔ جمہور کا خیال ہے کہ یہاں نفی جنس کی نہیں بلکہ کمال کی ہے۔ لیکن بلا دلیل اس نفی کو کمال پر محمول کرنا اصول کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم
(4) ”میل کچیل دور کر لیا“ یعنی وہ رمی وغیرہ کے بعد عنقریب حلال ہو جائے گا، پھر وہ حجامت وغیرہ کروائے گا اور اچھی طرح نہائے دھوئے گا۔