کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہےاس کے پیشاب کا حکم
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: Urine Of An Animal Whose Meat May Be Eaten)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
305.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ عکل قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کلمۂ اسلام پڑھا، پھر وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم اونٹوں والے لوگ ہیں، کھیتی والے نہیں اور انھوں نے مدینے کی آب و ہوا کو ناموافق پایا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں اور چرواہے کا حکم دیا اور انھیں حکم دیا کہ ان میں چلے جائیں اور ان کے دودھ اور پیشاب پئیں۔ پھر جب وہ تندرست ہوگئے اور وہ حرہ کے ایک کنارے میں رہ رہے تھے۔ وہ اسلام لانے کے بعد پھر کافر ہوگئے۔ انھوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور آپ کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے تلاش کرنے والے بھیجے۔ آخر کار انھیں پکڑ کر لایا گیا تو مسلمانوں نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے، پھر انھیں اسی زخمی حالت میں حرہ میں چھوڑ دیا گیا حتیٰ کہ وہ (تڑپتے تڑپتے) مرگئے۔
تشریح:
(1) چونکہ وہ لوگ صحرائی زندگی کے عادی تھے، اس لیے شہری ماحول انھیں راس نہ آیا اور بدہضمی ہوگئی۔ (2) ’’اونٹوں کے پیشاب پیو۔‘‘ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ماکول اللحم جانور، یعنی جس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کا پیشاب پاک ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پیشاب پینے کا حکم نہ دیتے۔ ویسے بھی شریعت کے اصول مدنظر رکھے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کیونکہ ماکول اللحم جانور گھروں میں رکھے جاتے ہیں، ان کا دودھ پیا جاتا ہے، ان پر سواری کی جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنی پڑتی ہے، اس لیے گھر، کپڑے اور جسم کو ان کے پیشاب اور گوبر سے پاک رکھنا ناممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ دوہتے وقت وہ پیشاب شروع کر دیں اور پیشاب کا کوئی چھینٹا دودھ میں جا گرے۔ اب اگر ان کے پیشاب اور گوبر کو پلید قرار دیا جائے تو لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، نیز ان کے پیشاب اور گوبر میں وہ بدبو نہیں ہوتی جو انسان اور حرام جانوروں کی نجاست میں ہوتی ہے، اس لیے دیہات میں لوگ ان جانوروں کے گوبر وغیرہ سے اپنے فرش دیواروں اور چھتوں کو لیپتے ہیں۔ ان کا گوبر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فطری استعمال ہے کیونکہ مسلم اور غیرمسلم سب اس میں شریک ہیں، لہٰذا ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کے پاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔ (3) جو حضرات مأکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو پلید سمجھتے ہیں، وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ علاج کی غرض سے پلید چیز کا استعمال جائز ہے، کیونکہ علاج بھی ایک مجبوری ہے۔ یہ امام ابویوسف کا قول ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علاج کی غرض سے بھی اس پیشاب کو جائز نہیں سمجھتے۔ وہ اس حدیث کو صرف انھی لوگوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں جنھیں حکم دیا گیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پتہ چلا تھا کہ ان کی شفا پیشاب میں ہے۔ ہم کسی اور مریض کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اسے لازماً شفا ہوگی۔ لیکن یہ بات کافی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بھی اس مسئلے میں ان سے متفق نہیں۔ (4) ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنا، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، انھیں گرم پتھروں پر چھوڑ دینا اور باوجود پانی کی طلب کے انھیں پانی نہ دینا اور ان کا اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا بطور قصاص تھا کیونکہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ بعینہٖ یہی ظالمانہ سلوک کیا تھا، لہٰذا انھیں بدلہ دیا گیا جو فرض تھا۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿کتب علیکم القصاص فی القتلی﴾(البقرة ۱۷۸:۲)’’تم پر مقتولوں میں برابری کا بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ قصاص برابری اور مماثلت کو کہا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں اور محدثین کے نزدیک اب بھی اگر قاتل نے مقتول کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا ہو تو قصاص کے حکم کے پیش نظر اور لوگوں کو عبرت دلانے کی خاطر قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا مگر بعض فقہاء (موالک و احناف) کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: [لاقود الا بالسیف](سنن ابن ماجه، الدیات، حدیث: ۲۶۶۸) یعنی قصاص صرف تلوار کے ایک وار سے لیا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ قصاص کے حکم کے خلاف ہے اور باب والی روایت قرآن کے موافق ہے اور سنداً اعلیٰ درجے کی ہے، لہٰذا محدثین کی بات ہی صحیح ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ عکل قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کلمۂ اسلام پڑھا، پھر وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم اونٹوں والے لوگ ہیں، کھیتی والے نہیں اور انھوں نے مدینے کی آب و ہوا کو ناموافق پایا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں اور چرواہے کا حکم دیا اور انھیں حکم دیا کہ ان میں چلے جائیں اور ان کے دودھ اور پیشاب پئیں۔ پھر جب وہ تندرست ہوگئے اور وہ حرہ کے ایک کنارے میں رہ رہے تھے۔ وہ اسلام لانے کے بعد پھر کافر ہوگئے۔ انھوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور آپ کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے تلاش کرنے والے بھیجے۔ آخر کار انھیں پکڑ کر لایا گیا تو مسلمانوں نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے، پھر انھیں اسی زخمی حالت میں حرہ میں چھوڑ دیا گیا حتیٰ کہ وہ (تڑپتے تڑپتے) مرگئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) چونکہ وہ لوگ صحرائی زندگی کے عادی تھے، اس لیے شہری ماحول انھیں راس نہ آیا اور بدہضمی ہوگئی۔ (2) ’’اونٹوں کے پیشاب پیو۔‘‘ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ماکول اللحم جانور، یعنی جس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کا پیشاب پاک ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پیشاب پینے کا حکم نہ دیتے۔ ویسے بھی شریعت کے اصول مدنظر رکھے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کیونکہ ماکول اللحم جانور گھروں میں رکھے جاتے ہیں، ان کا دودھ پیا جاتا ہے، ان پر سواری کی جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنی پڑتی ہے، اس لیے گھر، کپڑے اور جسم کو ان کے پیشاب اور گوبر سے پاک رکھنا ناممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ دوہتے وقت وہ پیشاب شروع کر دیں اور پیشاب کا کوئی چھینٹا دودھ میں جا گرے۔ اب اگر ان کے پیشاب اور گوبر کو پلید قرار دیا جائے تو لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، نیز ان کے پیشاب اور گوبر میں وہ بدبو نہیں ہوتی جو انسان اور حرام جانوروں کی نجاست میں ہوتی ہے، اس لیے دیہات میں لوگ ان جانوروں کے گوبر وغیرہ سے اپنے فرش دیواروں اور چھتوں کو لیپتے ہیں۔ ان کا گوبر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فطری استعمال ہے کیونکہ مسلم اور غیرمسلم سب اس میں شریک ہیں، لہٰذا ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کے پاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔ (3) جو حضرات مأکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو پلید سمجھتے ہیں، وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ علاج کی غرض سے پلید چیز کا استعمال جائز ہے، کیونکہ علاج بھی ایک مجبوری ہے۔ یہ امام ابویوسف کا قول ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علاج کی غرض سے بھی اس پیشاب کو جائز نہیں سمجھتے۔ وہ اس حدیث کو صرف انھی لوگوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں جنھیں حکم دیا گیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پتہ چلا تھا کہ ان کی شفا پیشاب میں ہے۔ ہم کسی اور مریض کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اسے لازماً شفا ہوگی۔ لیکن یہ بات کافی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بھی اس مسئلے میں ان سے متفق نہیں۔ (4) ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنا، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، انھیں گرم پتھروں پر چھوڑ دینا اور باوجود پانی کی طلب کے انھیں پانی نہ دینا اور ان کا اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا بطور قصاص تھا کیونکہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ بعینہٖ یہی ظالمانہ سلوک کیا تھا، لہٰذا انھیں بدلہ دیا گیا جو فرض تھا۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿کتب علیکم القصاص فی القتلی﴾(البقرة ۱۷۸:۲)’’تم پر مقتولوں میں برابری کا بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ قصاص برابری اور مماثلت کو کہا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں اور محدثین کے نزدیک اب بھی اگر قاتل نے مقتول کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا ہو تو قصاص کے حکم کے پیش نظر اور لوگوں کو عبرت دلانے کی خاطر قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا مگر بعض فقہاء (موالک و احناف) کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: [لاقود الا بالسیف](سنن ابن ماجه، الدیات، حدیث: ۲۶۶۸) یعنی قصاص صرف تلوار کے ایک وار سے لیا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ قصاص کے حکم کے خلاف ہے اور باب والی روایت قرآن کے موافق ہے اور سنداً اعلیٰ درجے کی ہے، لہٰذا محدثین کی بات ہی صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنے اسلام لانے کی بات کی، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم لوگ مویشی والے ہیں (جن کا گزارہ دودھ پر ہوتا ہے) ہم کھیتی باڑی والے نہیں ہیں، مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ انہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دے دیا جائے، اور ان سے کہا کہ وہ جا کر مدینہ سے باہر رہیں، اور ان جانوروں کے دودھ اور پیشاب پئیں۱؎ چنانچہ وہ باہر جا کر حرّہ کے ایک گوشے میں رہنے لگے جب اچھے اور صحت یاب ہو گئے، تو اپنے اسلام لے آنے کے بعد کافر ہو گئے، اور نبی اکرم ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کرنے والوں کو ان کے پیچھے بھیجا (چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور) آپ کے پاس لائے گئے، تو لوگوں نے ان کی آنکھوں میں آگ کی سلائی پھیر دی۲؎ ، اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے، پھر اسی حال میں انہیں (مقام) حرہ میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ علاج کے طور پر اونٹ کا پیشاب پیا جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ جن جانورں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پاک ہے، اور بوقت ضرورت ان کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ۲؎ : ایک روایت میں انس رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں اس وجہ سے پھیریں کہ ان لوگوں نے بھی چرواہے کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں، لیکن یہ روایت بقول امام ترمذی غریب ہے، یحییٰ بن غیلان کے علاوہ کسی نے بھی اس میں یزید بن زریع کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Anas bin Malik (RA) narrated that “some people from ‘Ukl came to the Messenger of Allah (ﷺ) and spoke about Islam. They said: ‘Messenger of Allah (ﷺ) , we are nomads who follow the herds, not farmers and growers, and the climate of Al-Madinah does not suit us.’ So the Messenger of Allah (ﷺ) told them to go out to a flock of female camels and drink their milk and urine. When they recovered — and they were in the vicinity of Al-Harrah — they apostatized after having become Muslim, killed the camel-herder of the Messenger of Allah (ﷺ) and drove the camels away. News of that reached the Messenger of Allah (ﷺ) and he sent people after them. They were brought back, their eyes were smoldered with heated nails, their hands and feet cut off, then they were left in Al-Harrah in that state until they died.” (Sahih)