Sunan-nasai:
The Book of Jihad
(Chapter: The Obligation Of Jihad)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3085.
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی ﷺ مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: ان لوگوں (مشرکین مکہ) نے اپنے نبی کو نکال دیا: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اب یہ لوگ ضرور تباہ وبرباد ہوں گے، پھر یہ آیت اتری: ﴿أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ……عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ﴾ ”جن لوگوں سے بلاوجہ لڑائی کی جاتی ہے، انہیں بھی لڑنے (جہاد) کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقینا اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔“ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: مجھے یقین ہوگیا کہ اب عنقریب کافر وں سے لڑائی ہوگی۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ لڑائی کے (جوازکے) بارے میں یہ سب سے پہلی آیت تھی جو اتری۔
تشریح:
(1) جہاد اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے مگر یہ دیگر ارکان ا سلام سے بعض شرائط میں مختلف ہے: * اکارن خمسہ، یعنی توحید ورسالت کی گواہی، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج فرض عین ہیں مگر جہاد عام حالات میں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ * ارکان خمسہ انفرادی عبادات ہیں جب کہ جہاد حکومت کے فرائض میںشامل ہیں۔* جہاد ضرورت کے مطابق ہے۔ ضرورت نہ پڑے تو جہاد بھی نہیں ہوگا جب کہ دیگر عبادات ضرورت پر موقف نہیں۔ مکی زندگی میں چونکہ مسلمان کمزور بھی تھے اور تعداد میں بھی بہت تھوڑے تھے‘ لہٰذا جہاد میں نہیں ہوا۔ مدینہ منورہ میں بھی جب ضـرورت پڑی، جہاد کیا گیا جیسے جنگ بدر، احد اور خندق کے واقعات ہیں۔ یا جب کفار کی شرانگیزی حد سے بڑھ گئی اور اسلامی مملکت کے لیے ناقابل برداشت بن گئی بلکہ اسلامی مملکت کے لیے خطرہ بن گئی تو حملہ کیا گیا جیسے خیبر اور فتح مکہ کے واقعات ہیں، البتہ اگر کفار امن سے رہیں، مسلمانوں پر جنگ مسلط نہ کریں اور نہ ان کی مملکت کے خلاف تباہ کن سازشیں کریں تو ان سے لڑائی نہیں لڑی جائے گی بلکہ ان سے معاہدہ کرکے صلح رکھی جائے گی جیسے یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ اور قریش کے ساتھ صلح جیدبیہ ہوئی۔* جہاد کے لیے ہر شخص کا نکلنا ضروری نہیں بلکہ امیر جن لوگوں کی ضرورت سمجھے، ان پر جانا فرض ہوگا۔ اور حکومت نے شعبہ فوج الگ سے قائم کررکھا ہے تو انہی پر جہاد فرض ہے۔ دوسرے لوگ اپنے اپنے کام کریں تاکہ معیشت کی گاڑی بھی چلتی رہے، تاہم امیر حسب ضرورت وحالات سب لوگوں کو نکلنے کا لازمی حکم دے سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کی زندگی میں غزوۂ تبوک کے موقع پر ہوا۔* یہ سمجھنا کہ جہاد سے مراد ہر وقت شمشیر بکف رہنا اور بلاوجہ بلاوجہ ماردھاڑ کرتے رہنا اور نہ امن سے رہنا نہ رہنے دینا، جہاد کے معنیٰ سے مراد ہر وقت شمشیر بکف رہنا اور بلاوجہ ماردھاڑ کرتے رہنا اور نہ امن سے رہنا نہ رہنے دینا ہے، جہاد کے معنی، میں تحریف ہے۔ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کے خلاف ہے اور قرآن مجید سے غلط استدلال ہے۔ (2) نبی کا کسی قوم سے نکل جانا اس قوم کی بدنصیبی اور اس کے لیے ہلاکت کا پیغام ہے، جب کہ نبی کا وجود رحمتِ الٰہی ہے اور عذاب سے تحفظ کی ضمانت ہے۔ جب تک کوئی نبی اپنی قوم میں رہا، عذاب نہیں آیا، خواہ کفر کتنا ہی عام تھا۔
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی ﷺ مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: ان لوگوں (مشرکین مکہ) نے اپنے نبی کو نکال دیا: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اب یہ لوگ ضرور تباہ وبرباد ہوں گے، پھر یہ آیت اتری: ﴿أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ……عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ﴾ ”جن لوگوں سے بلاوجہ لڑائی کی جاتی ہے، انہیں بھی لڑنے (جہاد) کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقینا اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔“ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: مجھے یقین ہوگیا کہ اب عنقریب کافر وں سے لڑائی ہوگی۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ لڑائی کے (جوازکے) بارے میں یہ سب سے پہلی آیت تھی جو اتری۔
حدیث حاشیہ:
(1) جہاد اسلام کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے مگر یہ دیگر ارکان ا سلام سے بعض شرائط میں مختلف ہے: * اکارن خمسہ، یعنی توحید ورسالت کی گواہی، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج فرض عین ہیں مگر جہاد عام حالات میں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ * ارکان خمسہ انفرادی عبادات ہیں جب کہ جہاد حکومت کے فرائض میںشامل ہیں۔* جہاد ضرورت کے مطابق ہے۔ ضرورت نہ پڑے تو جہاد بھی نہیں ہوگا جب کہ دیگر عبادات ضرورت پر موقف نہیں۔ مکی زندگی میں چونکہ مسلمان کمزور بھی تھے اور تعداد میں بھی بہت تھوڑے تھے‘ لہٰذا جہاد میں نہیں ہوا۔ مدینہ منورہ میں بھی جب ضـرورت پڑی، جہاد کیا گیا جیسے جنگ بدر، احد اور خندق کے واقعات ہیں۔ یا جب کفار کی شرانگیزی حد سے بڑھ گئی اور اسلامی مملکت کے لیے ناقابل برداشت بن گئی بلکہ اسلامی مملکت کے لیے خطرہ بن گئی تو حملہ کیا گیا جیسے خیبر اور فتح مکہ کے واقعات ہیں، البتہ اگر کفار امن سے رہیں، مسلمانوں پر جنگ مسلط نہ کریں اور نہ ان کی مملکت کے خلاف تباہ کن سازشیں کریں تو ان سے لڑائی نہیں لڑی جائے گی بلکہ ان سے معاہدہ کرکے صلح رکھی جائے گی جیسے یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ اور قریش کے ساتھ صلح جیدبیہ ہوئی۔* جہاد کے لیے ہر شخص کا نکلنا ضروری نہیں بلکہ امیر جن لوگوں کی ضرورت سمجھے، ان پر جانا فرض ہوگا۔ اور حکومت نے شعبہ فوج الگ سے قائم کررکھا ہے تو انہی پر جہاد فرض ہے۔ دوسرے لوگ اپنے اپنے کام کریں تاکہ معیشت کی گاڑی بھی چلتی رہے، تاہم امیر حسب ضرورت وحالات سب لوگوں کو نکلنے کا لازمی حکم دے سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ کی زندگی میں غزوۂ تبوک کے موقع پر ہوا۔* یہ سمجھنا کہ جہاد سے مراد ہر وقت شمشیر بکف رہنا اور بلاوجہ بلاوجہ ماردھاڑ کرتے رہنا اور نہ امن سے رہنا نہ رہنے دینا، جہاد کے معنیٰ سے مراد ہر وقت شمشیر بکف رہنا اور بلاوجہ ماردھاڑ کرتے رہنا اور نہ امن سے رہنا نہ رہنے دینا ہے، جہاد کے معنی، میں تحریف ہے۔ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کے خلاف ہے اور قرآن مجید سے غلط استدلال ہے۔ (2) نبی کا کسی قوم سے نکل جانا اس قوم کی بدنصیبی اور اس کے لیے ہلاکت کا پیغام ہے، جب کہ نبی کا وجود رحمتِ الٰہی ہے اور عذاب سے تحفظ کی ضمانت ہے۔ جب تک کوئی نبی اپنی قوم میں رہا، عذاب نہیں آیا، خواہ کفر کتنا ہی عام تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب مکہ سے نکالے گئے تو ابوبکر ؓ نے کہا: انہوں نے اپنے نبی کو نکال دیا «إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» یہ لوگ ضرور ہلاک ہو جائیں گے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی «أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ» ”جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں، انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ بھی مظلوم ہیں۔ بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے۔“ (الحج: ۳۹) تو میں نے سمجھ لیا کہ اب جنگ ہو گی۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں: ”یہ پہلی آیت ہے جو جنگ کے بارے میں اتری ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “When the Prophet (ﷺ) was expelled from Makkah, Abu Bakr (RA) said to him: ‘They have driven out their Prophet (ﷺ), verily to Allah we belong and to Him we return. They are surely doomed.’ Then it was revealed: ‘Permission to fight (against disbelievers) is given to those (believers) who are fought against, because they have been wronged; and surely, Allah is able to give them (believers) victory.’ Then I knew that there would be fighting.” Ibn ‘Abbas said: “This is the first Verse that was revealed concerning fighting.” (Sahih)